اسلام آبادکی احتساب عدالت میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج اعظم خان نے پارک لین ریفرنس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس میں نیب کے دائرۂ اختیار پر دلائل دیئے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس کیس میں تفتیش کا آغاز کیا ہے۔
دورانِ سماعت فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔
فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق آصف زرداری کے خلاف یہ کیس نہیں چلایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بینک قرض واپسی کے لیے ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کراچی میں کیس کر چکا ہے، بینک نے قانون کے مطابق کیس کر رکھا ہے تو نیب کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
جج اعظم خان نے استفسار کیا کہ کیا بینک نے نیب انکوائری شروع ہونے سے پہلے کیس کیا تھا؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ بینک نے انکوائری شروع ہونے کے بعد کیس دائر کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ قانون قرض سے متعلق کیا کہتا ہے، اس کیس میں بینک شکایت کنندہ ہی نہیں ہے، نیب کارروائی کیسے کر رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں اسٹیٹ بینک کے گورنر کی جانب سے مقروض کو نوٹس دیا جاتا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ کمپنی صرف ایک قرض لینے کے لیے نمودار ہوئی تھی، کمپنی رجسٹرڈ ہونے سے پہلے اس کے نام سے قرض کی درخواست چلی گئی، اس کمپنی کا اپنا دفتر بھی موجود نہیں، پارک لین کے دفتر کا ایڈریس دے رکھا ہے۔
فاروق نائیک نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ کو اس پر کیا پریشانی ہے؟
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے جواب دیا کہ پریشانی یہ ہے کہ بعد میں یہ پیسے فالودے والے کے اکاؤنٹس میں ملتے ہیں۔
فاروق نائیک نے سردار مظفر عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔
اس موقع پر جج نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس معاملے کو دیکھیں گے کہ کمپنی اصل تھی یا نہیں۔
فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے 2009ء میں صدرِ پاکستان کا حلف لینے سے پہلے پارک لین سے استعفیٰ دے دیا تھا، آصف علی زرداری شیئر ہولڈر رہے، لیکن ڈائریکٹر نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ 30 اکتوبر 2009ء کو جب قرض کمپنی اکاؤنٹ میں آیا اس وقت آصف زرداری پارک لین کے ڈائریکٹر نہیں تھے، آصف زرداری کا استعفیٰ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منظور کیا مگر ایس ای سی پی کو بتانے میں دیر کی۔
یہ بھی پڑھیئے:۔
زرداری 2005ء سے پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں، فاروق ایچ نائیک
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم میں فراڈ ایسے ہی ہوتا ہے، بڑا محتاط فراڈ ہوتا ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ قرض کمپنی لے رہی تھی تو جائیداد پارک لین کی گروی کیوں رکھی جا رہی تھی؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دونوں کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر تھا کہ پارک لین کے پلاٹ پر عمارت بنائی جائے گی۔
جج نے کہا کہ اس طرح بینیفشری تو پارک لین کمپنی ہی ہوئی ناں، پلاٹ اس کا بن رہا ہے، کمپنی کو بھی قرض لے کر عمارت بنانی تھی تو پارک لین نے خود قرض کیوں نہیں لیا؟
فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ اگر دونوں کمپنیوں نے ایسا کر لیا ہے تو اس معاملے میں جرم کیا ہوا؟
اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے خرابیٔ صحت کے باعث سماعت کے التواء کی استدعا کر دی۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خرابیٔ صحت پر فاروق نائیک التواء مانگ رہے ہیں، مخالفت کرنا اچھا نہیں لگتا، آئندہ سماعت پر یہ دلائل مکمل کریں تاکہ ہم بھی ان کو جواب دے سکیں۔
عدالت نے فاروق نائیک کی استدعا پر پارک لین ریفرنس کی سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی جبکہ انہیں آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔
فاروق نائیک نے یقین دہانی کرائی کہ میں آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کر لوں گا۔