• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب، نیب تاخیر کا ذمہ دار، تفتیشی افسروں میں اہلیت ہے نہ صلاحیت، معیار جانچنے کا بھی نظام نہیں، فیصلوں میں تاخیر کا آغاز نیب دفتر سے ہوتا ہے، چیف جسٹس

فیصلوں میں تاخیر کا آغاز نیب دفتر سے ہوتا ہے، چیف جسٹس


اسلام آباد ( نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ میں لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کے نیب کے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان،مسٹر جسٹس گلزاراحمد نے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب کے مقدمات میں تاخیر کا ذمہ دار بھی خود نیب ہی ہے،اس کے تفتیشی افسران میں اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں ہے۔

نیب میں تفتیش کا معیار جانچنے کا بھی کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے ، نقائص سے بھرپور تفتیشی رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کر دی جاتی ہے، نیب کے غلطیوں سے بھرپور ریفرنسز پر عدالتوں کو فیصلے کرنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں، بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغاز ہی نیب کے دفتر سے ہوتا ہے، تفتیشی افسران کو قانونی پہلوئوں کا پتہ ہی نہیں ہوتا اورتحقیقات سالہا سال تک چلتی رہتی ہے۔

لوگ سالوں تک نیب میں پھنس جاتے ہیں اور30 دن میں فیصلے کی بجائے لوگ 30 سال تک پڑے رہتے ہیں،نیب کے ریفرنس کی بنیاد ہی غلط ہوتی ہے،ریفرنس میں کوئی کوالٹی ہی نہیں ہوتی،نیب ریفرنس میں پچاس پچاس افراد کو گواہ بنا لیتاہے حالانکہ کوالٹی کا ایک گواہ ہی کافی ہوتا ہے، جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تفتیش مکمل ہونے سے قبل ملزم کو گرفتار کرنے کی کیا منطق ہے۔

اگر ملزم تفتیش کے دوران تعاون نہ کرے تو اس کی گرفتاری کی سمجھ بھی آتی ہے ،نیب کی جانب سے بلاوجہ کی گرفتاریوں سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ،چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں آئے ہوئے ہیں؟ تو پراسیکیوٹرجنرل اصغر حیدر روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں نیب کی جانب سے کوئی معاونت نہیں ملتی ہے،اور تمام الزام عدالتوں پر لگ جاتا ہے۔

آپ کے تفتیشیوں کو حقائق اور لیگل پہلوئوں کا علم ہی نہیں ہوتا ہے اور تحقیقات انکوائری سالوں تک کرتے رہتے ہیں،جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش مکمل ہونے سے قبل ملزم کو گرفتار کرنے کی کیا منطق ہے ؟اگر ملزم تفتیش کے دوران تعاون نہ کرے تو اس کی گرفتاری کی سمجھ بھی آتی ہے ،نیب کی جانب سے بلاوجہ کی گرفتاریوں سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ میں آپ کی بات چیئرمین نیب کے گوش گزار کردوں گا۔

فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا نیب کے کوئی قواعد بھی ہیں ؟ تو انہوںنے انکشاف کیا کہ نیب کے کوئی قواعد موجود نہیں ہیں لیکن ایس او پیز ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے ایس او پیز قواعد کا متبادل نہیں ہوسکتے ہیں، نیب ایک ماہ کے اندر اندر اپنے قواعد تشکیل دے ،انہوں نے کہاکہ یہ قواعد نیب آرڈیننس کی سیکشن 34 کے تحت بنائے جائیں اور آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیاں مل رہی ہیں ، راولپنڈی میں ایک پراسیکیوٹر پر فائرنگ بھی کی گئی ہے لیکن پولیس اس وقوعہ کا مقدمہ ہی درج نہیںکررہی تھی ،اور یہ نہ پوچھیں کہ مقدمہ درج کرانے کے لیے کس کس کی مدد لیناپڑی ہے ،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نیب کو فنڈز دینے میں ہچکچا رہی ہے جبکہ ملزمان کے وکلاء انتہائی قد آور اور بھاری فیسیں لینے والے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرز کی تنخواہیں اور مراعات بھی انتہائی کم ہیں ،اگر ہمیں فنڈز ملیں تو اچھے پراسیکیوٹرز بھرتی کرسکتے ہیں اور مقدمات کے نتائج بھی اچھے آسکتے ہیں ، جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہاکہ فنڈز انتظامی معاملہ ہے جس میںعدالت کچھ نہیں کرسکتی ہے،جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ سب ہمارے ہی خلاف ہیں صرف سپریم کورٹ سے حوصلہ ملتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ نیب والے کچے پکے کیس بنا کر عدالتوں کو بھیج دیتے ہیں۔

پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہاکہ تفتیشی افسران کی نیویارک اور برٹش پولیس سے تربیت کروا رہے ہیں، ان حالات میں بھی نیب 61 فیصد ملزمان کو سزا دلوا رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نئی عدالتوں کے قیام میں 2.86 ارب کا مسئلہ چوزے کی خوراک کے برابر ہے، نیب مقدمات جیتے تو ہزار ارب سے زائد کی ریکور ی ہو سکتی ہے، دو ارب تو نیب کے ایک کیس سے ہی نکل آئیں گے، حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے، بیس بیس سال سے مقدمات احتساب عدالتوں میں پڑے ہیں۔

بعد ازاں فاضل عدالت نے کابینہ سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے کی ہدایت کر تے ہوئے کہاکہ سیکرٹری قانون کابینہ سے منظوری لیکر ایک ماہ میں ججوں کی تعیناتی کا عمل شروع کردیں، نئی احتساب عدالتوں کیلئے انفرااسٹرکچر فوری تیار کیا جائے،بعد ازاں کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کردی گئی ۔

تازہ ترین