محمد افروز عالم
تعلیم کا اولین مقصد انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی نشوونما کرنا ہے۔ حصولِ تعلیم کے لیے قابل اساتذہ بے حد ضروری ہیں جو طلبہ کو تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ تعلیم محض معلومات کو طلبہ کے ذہنوں تک پہنچادینے کا نام نہیں، بلکہ ان کے ذہنوں کو جلا بخشنے، انھیں سوچنے کا صحیح اسلوب سکھانے، ان میں ذوق نظری اور تنقیدی نگاہ پیدا کرنے اور انھیں فکری اجتہاد کے قابل بنانے کا نام ہے۔
تو یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ قابل، باصلاحیت اور تربیت یافتہ استاد دستیاب نہ ہوں۔حقیقی استاد وہ ہے جو طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور انھیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالامال کرے۔ رابرٹ فراسٹ نے کہا تھا کہ ”میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں“۔ جن اساتذہ نے اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھایا ان کے شاگرد آخری دم تک ان کے احسان مند رہے۔
طلبہ کی تعلیمی تشکیل اور ان کی تربیت میں بہت سے عوامل کارفرماہوتے ہیں۔ ان عوامل میں مادری تربیت، ماحول، دوست واحباب، تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل وہ اساتذہ ءکرام ہیں جن کے بغیر طلبہ اور معاشرے کی تشکیل اور ترقی ممکن نہیں۔ ایک استاد کا اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ تدریس کے شعبے میں ماہر ہونا بھی لازمی ہے۔
استاد کو نہ صرف اپنے مواد و مضمون پر مکمل مہارت ہونی چاہیے بلکہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مضمون کس طرح پڑھانا ہے؟ تدریس کے کون سے طریقے استعمال کرنے ہیں؟ اور ان طریقوں کے استعمال کے کیا فوائد و نقصان ہوسکتے ہیں؟ استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے پاس کیا وسائل ہیں؟ اور ان وسائل کو کس طرح استعمال کرنا ہے؟ عصر حاضر میں استادکو جدید اطلاعاتی اور ترسیلی ٹکنالوجی کا استعمال آنا چاہیے اور کسی سہولت کی عدم دستیابی میں بھی پڑھانے کا سلیقہ آنا چاہیے۔
افلاطون نے کہا تھا کہ بہترین معاشرہ تشکیل دینے کے لیے بہترین نظام تعلیم ضروری ہے، لیکن دوسری طرف کسی بھی معاشرے کا تعلیمی نظام اس معاشرے کے مجموعی ثقافتی معیار سے مشروط ہے۔
بقول علامہ اقبال ،’’معلم کا فرض تمام فرائض سے زیادہ مشکل او راہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔
تدریس کے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک ہی طریقہ ہر حالت اور ہر ماحول کے لیے مناسب نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کو مختلف اوقات اور احوال کے مطابق مفید سے مفید تر طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ طلبہ کے لیے سب سے مفید طریقہ وہ ہوتا ہے، جس طریقے سے وہ سبق سمجھ سکیں اور اساتذہ کے لیے بھی بہتر طریقہ وہی ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ سبق سمجھا سکیں۔ تدریس کے لیے ہمیشہ ایک ہی طریقہ اور اسلوب اپنانا ایسی چیز ہے جو طلبہ کو سستی اور پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے۔
اس لیے ہر سبق کو پڑھانے کے لیے نیا اسلوب و طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ طلبہ میں نشاط پیدا کرنے کے لیے ان سے بھی کام لیا جائے۔معلم کا کام طلبہ کی تربیت اور اصلاح، معلومات کی منتقلی اور اپنے مثالی کردار کا تاثر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ ٹھوس حقائق کو بے رنگ انداز میں بیان نہیں کریں بلکہ اپنی شگفتہ بیانی اورشیریں مقالی سے اپنے درس کو دلچسپ او رپر کشش بنائے۔
معلم کے پیشے کی ایک خصوصیت ایسی ہے جو اسے تقریباً تمام پیشوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اسے اپنے طلبہ کے دل ودماغ اور روح سے براہِ راست سابقہ پڑتا ہے اور ان پر اس کی شخصیت، فلسفہ زندگی، اس کے طرز عمل کا اثر بالواسطہ پڑتا ہے۔استاد وہاں امید کرتا ہے، جہاں دوسرے دل چھوڑ دیتے ہیں، وہاں تازہ دم رہتا ہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں، اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں۔موجودہ وقت میں تعلیم ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس نے معلم کے مقام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ استاد کا کام صرف بچوں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنا بھی ہے۔ بچوں کی تربیت سازی میں اساتذہ کا کردار کم ہورہا ہے۔ لہٰذا اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
درس و تدریس کے عمل میں اساتذہ کو ایک انتہائی اہم اور قابلِ عزت مقام حاصل ہے۔ اساتذہ اپنے پیشے سے منسلک رہ کر نئی نسل کو نت نئے علوم اور درس دے کر انھیں ایک مہذب انسان بناتے ہیں۔تدریس کوئی جزوقتی پیشہ نہیں بلکہ اساتذہ کو اپنے طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقتی ذہنی اور جسمانی محنت و مشق کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔