یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ شفاف احتساب ہی معاشروں میں توازن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے لیکن افسوس کہ اس ضمن میں ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی دکھائی دیتی ہے جس کی اس سے بڑی گواہی کیا ہو گی کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے نیب کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے نیب کے مقدمات میں تاخیر کا ذمہ دار خود اسے قرار دیا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب کے تفتیشی افسران میں اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں، نقائص سے بھرپور تفتیشی رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کر دی جاتی ہے جس سے عدالتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، تفتیشی افسران کو قانونی پہلوئوں کا پتہ ہی نہیں اور 30دن کے فیصلے 30سال پڑے رہتے ہیں، ریفرنس کی بنیاد ہی غلط ہوتی ہے، تفتیش مکمل ہونے سے قبل ملزم کی گرفتاری کی کیا منطق ہے بلاوجہ کی گرفتاریوں سے عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے ۔ فاضل عدالت نے کابینہ سے 120نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے کی ہدایت کرتے ہوئے ان کے انفراسٹرکچر اور نئے ججوں کی تعیناتی کے حکم کے ساتھ کس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی۔اپوزیشن، تاجر، بیوروکریسی، حکومت اورعدلیہ بھی نیب کی نااہلیوں کی نشاندہی کر رہی ہے تو بلاشبہ یہ بے سبب نہیں۔ سب کے علم میں ہے کہ یہ ادارہ کس مقصد کیلئے بنایا گیا اب اگر اس کی تربیت ہی اس نہج پر ہوئی ہےتو یہ اس کے علاوہ کیا کارکردگی دکھا سکتا ہے،البتہ اس کی حرکات سے عدلیہ جیسا معتبر ادارہ بدنام ہو رہا ہے اور مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اِس کا کیا جواز ہے کہ کسی کو بھی بغیر مقدمہ درج کئے گرفتار کر لیا جائے اور پھر ضمانت تک نہ ملے، یہ سراسرانسانی حقوق اور انصاف کی خلاف ورزی ہے۔اس ادارے کو بند کرنے کے مطالبے میںتقریباً سبھی کی آوازیں شامل ہیں ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ انفراسٹرکچر تبدیل کیا جائے اور بے گناہوں کو فوری انصاف دلا کر قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں۔