• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی آئی اے پولیس شہید بے نظیر آباد ، نواب شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد کرلیں۔ پولیس کےمطابق خفیہ اطلاع ملنے پر محمدی ٹاؤن میں منشیات کے بین الصوبائی گروہ کے خلاف کارروائی کی گئی اور اس کے کارندوں کو گرفتار کرکے کروڑوں روپیہ مالیت کی چرس کے علاوہ گٹکا،مین پوری اور پان پراگ کی تیاری میں استعمال ہونے والا مٹیریل برآمد کرکے تین ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

منشیات کے خلاف کارروائیوں کے پولیس کے دعوےاپنی جگہ لیکن اٹل حقیقت یہ ہے کہ نواب شاہ میں منشیات فروشی کاناجائز کاروبار آزادنہ طور پر جاری ہے۔ شراب ،چرس ،ہیروئن،افیون سمیت دیگر منشیات نے انسانوں کو موت کی وادی میں پہنچانے میں تو اہم کردار ادا کیا ہی تھا تاہم اب مین پوری ،گٹکا z21 ماوہ اور اسی طرح کے کیمیکل سے تیار پان پراگ کے استعمال سے نوجوان نسل کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہورہی ہے ۔ اس کاروبار میں شریک مافیا کی جڑیں بھی کینسر کی جڑوں کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں اوران کا طریقہ کار اس قدر منظم اور مربوط ہے کہ عقل چکرا جاتی ہے۔بھارت سے آنے والا گٹکا نواب شاہ میں عام ملتا ہے۔بھارتی گٹکا براہ راست پاکستان نہیں آتا۔ بھارت سے افغانستان کی چوکی اسپن بولدک، وہاں سے چمن اور پھر کوئٹہ پہنچا دی جاتی ہے اس کے بعد پورے پاکستان میں اس کی ترسیل ایک سسٹم کے تحت کی جاتی ہے۔ 

اس کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا ایک شخص جو کہ Z21کا سابقہ ڈیلرتھا، اس کا کہنا ہے کہ پولیس کا تعاون اس کاروبار کرنے والوں کے ساتھ اوّل روز سے جاری ہے جبکہ اس سلسلے میں یہ طریقہ واردات بھی کیا جاتا ہے کہ ہر ماہ پولیس کی کارکردگی دکھانے کے لئے آپس کی ملی بھگت سے کچھ مال پکڑا دیا جاتاہے۔ پریس اور سوشل میڈیا پر اس’’کامیابی‘‘ کی تشہیر کی جاتی ہے۔پولیس سول سوسائٹی کے بعض رہنماؤںکے ذریعہاپنی تعریفوں کے پل بندھواتی ہے۔ 

تاہم عوام کو اس وقت مایوسی ہوتی ہے جب ہر جگہ یہ زہرفروخت ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کاروبار میں ملوث بعض پولیس افسران ،خانہ پری کے طور پر منشیات فروشوں کے چھوٹے کارندوں کوگرفتارکرتے ہیں لیکن مک مکا کرکے ان کے خلاف مقدمہ اس قدر کمزور بناتے ہیں کہ وہ عدالت سے باعزت بری ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔نواب شاہ کےبارے میں مشہور ہے کہ یہاں سےاس زہر کو کراچی ،حیدر آباد ،ٹھٹھہ ،تھرپارکر اور دیگر علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔اس کاروبار میں شریک بعض پولیس افسران اپنی سرکاری حیثیت و اختیارات کا فائدہ اٹھا کر اس مافیا کےپشت بان اور اس کی محفوظ نقل و حمل اور اس قبیح کاروبار کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں ۔ اس کی مثال نواب شاہ شہر کے گنجان آباد علاقے منوآباد،ایسر پورہ،مریم روڈ ،بلوچ پاڑہ ہیں ۔

انچارج سی آئی اے پولیس محمد مبین پرھیاڑ نے رابطہ کرنے پر جنگ کو بتایا کہ منشیات اور گٹکا ،پان پراگ کے خوفناک اثرات کے باعث پولیس کو اس کاروبار کرنے والی مافیا کے خلاف کارروائی کے احکامات دیئےگئے ہیں۔ تاہم اس سوال پر کہ پولیس کاروائیوں کے باوجود یہ زہر کس طرح کھلے عام دستیاب ہے؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ بعض تھانوں کی حدود میں اس کی کھلے عام فروخت کا ایس ایس پیتنویر حسین تنیو نے سخت نوٹس لیا ہے۔

گٹکے و پان پراگ کے زہر کی تباہ کاریوں کے بارے میں سندھ کے کراچی ،حیدر آباد کے بعد بڑے سرکاری نورین کینسر اسپتال کےسینئرڈاکٹر غلام اصغر چانڈیو نے جنگ کو بتایا کہ ضلع شہید بے نظیر آباد میں کینسر کے مریضوں میں 95فیصد تعداد منہ کے کینسر کے مریضوں کی ہے جو کہ گٹکا ،مین پری، پان پراگ کے علاوہ پان کےاستعمال کے ذریعہ اس موڈی مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کینسر ایسا مودی مرض ہے کہ اس کا مکمل خاتمہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے خاص طور پر منہ کا کینسر جس کا درد اور اذیت ناقابل برداشت ہوتی ہےجسے پوری زندگی بھگتنا پڑتا ہے۔ 

اس کے علاج کے لیے کیمو تھراپی اور دیگر مراحل عذاب سے کم نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گٹکا ،مین پوری ، پان پراگ اور پان کے مہلک اثرات کے بارے میں عوام میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی و سماجی تنظیمیں اور مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤںکا کردار بھی انتہائی ضروری ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین