یہاں ہر روز ہوتا ہے نیا اک ظلم کا قصہ
یہاں ہر روز ہوتی ہے کہانی جبر کی تازہ
٭
لگے اظہار پر پہرے ،مخالف جیل میں بند ہیں
ہیں ڈر اور خوف سے لرزاں جو باہر رہ گئے چند ہیں
٭
ہوا گرم شدت سے یہاں بازار رشوت کا
چلن سیاست کے میدان میں ہے بدلے کا، عداوت کا
٭
نکلتے گھر سے باہر اب صلاح الدین ڈرتے ہیں
یہاں شام وسحر انساں حوالاتوں میں مرتے ہیں
٭
یہاں پر جبر حاکم ہے،یہاں پولیس گردی ہے
ہر اک معصوم شہری کے یہاں چہرے پہ زردی ہے
٭
چڑھا ہتھے پُلیس کے جو ہوا پتا ہے اس کا صاف
اماں دارالحکومت میں، نہ ساہی وال میں انصاف
٭
کورونا سے نپٹنے کی نہیں ہے کوئی تیاری
وباء اور بھوک کے ہاتھوں ہے مرتی قوم بےچاری
٭
نہ دیکھی تھی کبھی پہلے ہوئی ہے اب جو مہنگائی
گرانی سے غریبوں کی لبوں پر جان ہے آئی
٭
ہوئیں سب نعمتیں غائب ہوئے پھل ،سبزیاں معدوم
ترس گئے نان کو مفلس ہیں بچے دودھ سے محروم
٭
غریبوں کے گھر کے اب ہیں چولہے ہو گئے ٹھنڈے
نہیں سوکھی بھی روٹی اب، کہاں کے حلوے اور منڈے؟
٭
یہاں ہر ایک انسان کو پڑے روزی کے لالے ہیں
مسلسل بھوک نے ان کے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہیں
٭
وہ پہلے سرخ تھی جن کی ہوئی رنگت ہے اب پیلی
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیسی ہے تبدیلی
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ کیسی ہے تبدیلی
٭
سینئر صحافی، شاعر اور ادیب ازہر منیر مارچ 2020سے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے لئے شملہ پہاڑی چوک لاہور میں بھوک ہڑتال پر ہیں۔