وہ آخر اپنے گھر کا ہو گیا نا!، کلیجہ سب کا ٹھنڈا ہو گیا نا!
کہا تھا دوستی اتنوں سے مت کر!، بوقت عقد پھڈا ہو گیا نا!
سیاسی کم نگاہی رنگ لائی، ہمیں پھر مارشل لا ہو گیا نا!
پہن کر ہار وہ پھولا تھا کیسا، وہی پھانسی کا پھندا ہو گیا نا!
ہمارا حال پتلا ہے تو کیا غم ہے، ترا الو تو سیدھا ہو گیا نا!
یہ میرا دیدہ تر روتے روتے، منسپلٹی کا نلکا ہو گیا نا!
اگرچہ شہر کا قاضی کو غم ہے، مگر پہلے تے تکڑا ہو گیا نا!
بہت سوں کو کیا ڈنڈے نے ٹھنڈا، مگر ڈنڈا بھی تو ٹھنڈا ہو گیا نا!
کنکھیوں سے بہت تکتا تھا اس کو، وہ آخر کار بھینگا ہو گیا نا!
ہمارے ساتھ بھی فرہاد چاچا!، وہی گڑ بڑ گھٹالا ہو گیا نا!
تھا اس کا باپ تو شادی پہ راضی، مگر دھندے میں ٹوٹا ہو گیا نا!
وہ بیوی کا ہی جھگڑا کم نہیں تھا،کہ بچے کا بھی ٹنٹا ہو گیا نا!
بلا میک اپ اسے دیکھا ہی کیوں تھا؟، تمناؤں کا کونڈا ہو گیا نا!
مری ساری خوشی پر پڑی گئی اوس!، پڑوسن کے بھی بیٹا ہو گیا نا!
کلیساء میں مدر روزی سے مل کر، مرا دل بھی ‘ کلی سا ‘ ہو گیا نا!
مسلماں خاکساری کرتے کرتے، مصلی سے مصلٰی ہو گیا نا!
بدلتے جنس لگتی ہے کوئی دیر، فضیحت سے فضیتا ہو گیا نا!
لفافہ بھی ملا ہے دادا کے ساتھ، چلو کچھ دال دلیا ہو گیا نا!
خدارا منہ پھلانا چھوڑ دو تم، کہ چہرہ تھوبڑا سا ہو گیا نا!
غزل پڑھ کر یہاں بزم سخن میں، عنایت پیٹ ہلکا ہو گیا نا!