وزیر اعظم کے مشیرِ احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم سے متعلق اپوزیشن کے پیش کردہ مسودہ پر حیرت ہے جس میں 34 ٹانکے لگانے کی کوشش کی گئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ملیکہ بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں 2018 میں داخل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ گرے لسٹ میں کوئی ایک دم شامل نہیں ہوتا، یہ ناکامیوں کاسلسلہ ہوتا ہے، منی لانڈرنگ، کرپشن، ٹیرر فنانسنگ پر چیک لگانا ہوتا ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹ کیس کے لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی تو ثبوت سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سابق صدر بڑے اعتماد سے کہتا ہے کہ فالودے والے سے ثابت کریں میں نے اس کا اکاؤنٹ کھلوایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی شریف خاندان بھی ملک کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی وجہ ہے، خادمِ اعلی بیگمات کے لیے مختلف ٹی ٹیز لگاتے رہے جن میں بہت سے گھر بھی شامل تھے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف ریفارمز میں کچھ قانون سازی اہم ہے، ہمیں ایف اے ٹی ایف پر قومی یکجہتی کی ضرورت تھی۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت یہ کلبھوشن کے وکیل بنے ہوئے ہیں، ایک سابق وزیراعظم نے اپنی پوری تقریر کلبھوشن پر کی، انہیں آئی سی جے میں جانا چاہیے، یہ کلبھوشن کے حقوق کی صحیح ترجمانی کر سکتے ہیں۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے تو کچھ معاملات پر اتفاق بھی ہوا، میوچل لیگل اسسٹنٹس ایکٹ پر اپوزیشن نے اتفاق نہیں کیا۔
مشیرِ احتساب اور داخلہ نے کہا کہ ایم ایل اے ایکٹ نہ ہونے پر بیرونِ ملک منی لانڈرنگ کی تفصیلات نہیں مانگ سکتے۔
شہزاد اکبر نے یہ بھی کہا کہ میوچل لیگل اسسٹنس کا ادارہ بن گیا تو سب کو معلوم ہے کس کی سچائی سامنے آجائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے پیش کردہ مسودہ پر حیرت ہے، اس پر اپوزیشن شرمندہ ہے جس میں 34 ٹانکے لگانے کی کوشش کی گئی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نیب کو غیر فعال کرنے کی 34 ترامیم تھیں، جس پر اپوزیشن منہ چھپاتی پھر رہی ہے، یہ این آر او نہیں بلکہ این آر او پلس پلس ہے۔
مشیر احتساب کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے کہا کہ نیب ایکٹ کا اطلاق 1999 کے بعد سے ہو، اس سے چودھری شوگر ملز کیس تو ختم ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ان کے دور میں جتنی کرپشن ہوئی سب کو حلال کر دیں، جبکہ یہ بھی تجویز ہے کہ ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان شوگر ملز کا کیس ایک ارب روپے سے کم کا ہے جس سے شہباز شریف بچ جائیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ نیب کے دائرہ کار سے منی لانڈرنگ کو نکالیں، ان سے پوچھا گیا کہ منی لانڈرنگ پھر کس کو دیں تو کہنے لگے کہ اسے بینکنگ کورٹس کو دے دیں۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ منی لانڈرنگ ترمیم ماننے سے زرداری، فریال تالپور، شہباز شریف، انور مجید وغیرہ کے کیس ختم ہوجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ نیب کے دائرہ کار سے اثاثہ ریکوری کا جرم نکالنے کی ترمیم تھی، اثاثہ ریکوری نیب کے اختیار سے ہٹانے سے آصف زرداری، نواز شریف، مریم نواز اور خورشید شاہ وغیرہ بری ہوجائیں گے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ترامیم میں کہا بیرون ملک سے آئے ثبوت کو براہِ راست عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا۔
انھوں نے کہا کہ شیخ رشید کا جملہ ہے their is a face behind' every case'، تاہم اپوزیشن کے ہر کیس کے پیچھے فیس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی ترمیم ہے نیب کے لوگ کسی بھی طرح آزادی سے کام نہ کر سکیں، ہمارے احتساب کے قوانین میں بین الاقوامی وعدے ہیں۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ہم قانون سازی کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، ان تمام شرائط کو چھوڑ دیں، قانون سازی پر بات کریں، انفرادیت تک محدود نہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ قانون سازی کرتے ہوئے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ دیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس شخص کو داد دینا پڑے گی جس نے یہ مسودہ بنایا ہے۔