• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جانیے،’’انسانی صنفِ سخن‘‘ ایک جیتی جاگتی زندگی سے، دوسرے عالمِ رنگ و بُو میں کیسے لے جاتی ہے

جولزورن نے زیرِآب چلنے والے ایک ایسے بحری جہاز کا تصوّردیا، جو بجلی سے چلتا تھا۔ اس زیرِآب جہاز کا نام ’’نوٹیلس‘‘ رکھا گیا۔ اس تصوّر نے سائمن لیک نامی لڑکے کو اتنا متاثرکیا کہ وہ ایسی ایجاد پر تُل گیا اور بالآخر دنیا کی پہلی سب میرین بنانے میں کام یاب ہوگیا۔ سائمن نے اس کا نام آرگوناٹ رکھا۔ جولز ورن نے 1865کے ایک ناول میں انسان کےچاند پر اُترنے کی تفصیلات کی حیران کُن طور پر درست تصویر کشی کردی تھی۔ جب کہ حقیقی طور پر انسان اس ناول کے تحریر کیے جانے کے 104برس بعد چاند پر اپنے قدم رکھنے میں کام یاب ہوا۔ چاند پرکششِ ثقل زمین کی بہ نسبت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انسان چاند پر زمین کی طرح قدم جما نہیں پاتا۔ جولزورن1865 میں دیگر تفصیلات کے علاوہ تحریر کرتا ہے، ’’اُن تینوں کو محسوس ہوا کہ اُن کے بدن وزن سے محروم ہوگئے ہیں۔

اگر وہ اپنے بازو بڑھا دیتے تو بھی گرنے کا خدشہ موجود نہ تھا۔ اُن کے سَراُن کے کندھوں پر ہلتے تھے، اُن کے قدم جمتے نہ تھے اور وہ خمار آلودگی کے شکار بندوں کی مانند استحکام سے محروم تھے‘‘۔1898 کا واقعہ ہے۔ ابھی ٹیلی فون بھی عام نہ ہوئے تھے۔ معروف مفکّر،ادیب مارک ٹوئن نے اپنی کہانی’’1904کے لندن ٹائمزسے‘‘ میں ایک ایجاد کا خاکہ پیش کیا، جسے ’’ٹیلی کیٹرو اسکوپ‘‘ کانام دیا۔ وہ ایجاد ٹیلی فون سسٹم کےذریعےایک ورلڈ وائڈنیٹ ورک (www) قائم کرتی ہے، جس کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یوں مارک ٹوئن نے انٹرنیٹ کا ابتدائی تصوّر پیش کیا۔ مغربی سائنس فِکشن میں ایسی بےشمار ایجادات کا تذکرہ وضاحت کے ساتھ ملتا ہے، جو بعد ازاں معرضِ وجود میں آئیں۔ 

گویا ذہن نارسا کو اسی توسّط سے رسائی میسر آئی۔ ان میں خود کارچہرہ شناسی (Automated Face Recognition) جسے آج کے ٹچ اسکرین فون تک میں عام کردیا گیا ہے، ناول ’’ڈارون کی اولاد‘‘ از گریگ بیرمیں موجود ہے۔ اسی طرح دیگر ایجادات میں شامل ٹچ ٹیبلیٹ، ڈرون، ای۔پیپر اور دیگر بےشمار آلات و اشیا کے ابتدائی خیال فِکشن میں پیش کردیے گئے تھے۔

فِکشن کے اثرات پر بحث کو واپس لاتے ہوئے ایک تذکرہ برمحل ہے۔ بین الاقوامی سطح کے نمایندہ ادب کو شائع کرنے والا رسالہ ’’نیویارکر‘‘ لکھتا ہے، ’’یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ فِکشن کا مطالعہ ہمارے دماغ کو مسرّت آمیز، وجدانی کیفیت میں لے آتا ہے۔ یہ مراقبے سے مماثل تجربہ ہوتاہے۔ مطالعہ صحت پر مراقبے جیسے اثرات مرتب کرتا ہے، جن میں گہرا آرام اور اندرونی سُکون شامل ہیں۔ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے بہتر نیند لیتے ہیں، کم مضطرب ہوتے ہیں، تناؤ ان پر کم اثر انداز ہوتا ہے، عزت ِنفس میں اضافہ ہوتا ہے اور قاری میں ڈیپریشن بہ نسبت غیر قاری کم ہوتا ہے۔‘‘ بفرجیسے کام یاب امریکی کاروبار کے مالک، جوئل کا کہنا ہے کہ دن کی آخری سرگرمی ایسی ہونی چاہیے، جو آپ کو دن بھر کے معمولات سے منقطع کرکے سُکون کی نیند کی جانب لے جائے۔ 

اس معاملے میں مطالعۂ فِکشن ایک بہترین سرگرمی ہے۔ وہ ایک بہت اہم بات کہتا ہے، ’’رات کو سونے سے پہلے نان فِکشن کا مطالعہ انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند کرتا ہے اور آیندہ کے لائحہ عمل پر سوچنے پر اُکساتا ہے۔ اس کے برعکس فِکشن کا مطالعہ انسان کو تصوّرات میں لے جا کر لمحۂ موجود میں جینے کی ترغیب دیتاہے۔‘‘ برصغیر میں ثقافتی تنّوع دنیا کے بیش تر علاقوں سے زیادہ ہے۔ مختلف مذاہب، فرقے، زبانیں، گروہ اور چہروں کے نقوش اِسے رنگین ٹکڑیوں میں بَٹاقابلِ توجّہ خطہ بناتے ہیں۔ جدید عالمی چلن میں تنّوع کو پسند کیا جاتاہے۔ علاقائی فِکشن کی مُلکی سطح پر پذیرائی قومی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو جان کر اور سمجھ کر زیادہ برداشت پیدا کرسکتے ہیں۔ 

پرَخَرسٹ کی تحقیق بتاتی ہے کہ وہ قاری جو پیچیدہ نوعیت کے فِکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، معاملات کو زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پرَخرسٹ کا کہنا ہے کہ مختصر تحریروں، جیساکہ اخبارات، رسائل وغیرہ کا مطالعہ کرنے والے قارئین میں سنجیدہ، علمی اور فکری نوعیت کی تحریروں کے قارئین کی بہ نسبت کم تر تفہیم اور شعور پیدا ہوتاہے۔ مختصرتحریریں وقتی لُطف وفکر کا سامان تو مہیا کرتی ہیں، پر دیرپا اثرات جو شخصیت میں تبدیلی لے کر آئیں، کم کم پیدا کرتی ہیں۔ ادب بالعموم اور فِکشن بالخصوص قاری کو روایت سے منسلک رکھتا ہے۔ یوں قاری کے تحت الشعور اور یادداشت میں روایت ایک اہم عُنصر کے طور پر موجود رہ کر اُس کی سوچ اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 

روایت کی موجودی ایک صحت مند شخصیت کی تعمیر میں مدد دینے کے علاوہ ذہنی زرخیزی کا باعث بنتی ہے۔ روایت کی روشنی میں معروضی حالات کا تجزیہ اور مستقبل کے متعلق غوروفکر زیادہ بار آور اور زمین سے وابستہ ہوکر پرُمعنی ہوجاتا ہے۔ طویل اور نسبتاً پیچیدہ فِکشن کا مطالعہ اس امر میں زیادہ معاون ہوتاہے۔ ٹِم اوبرآئن ویت نام کی خوف ناک جنگ لڑنے والا سپاہی، جو بعدازاں کام یاب ادیب بنا، کہتا ہے، ’’فکشن اُس سچ تک لے کر جاتا ہے جب سچ، اصل سچائی کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتا‘‘۔

نوبل انعام یافتہ ادیبہ، نادائن گورڈیمرکہتی ہیں، ’’حقائق ہمیشہ اس سے کم بیان کرتے ہیں، جو وقوع پذیر ہوتا ہے۔‘‘یعنی ایک واقعے کا سادہ بیان اُس کی حقیقت کا پوری طرح احاطہ نہیں کرپاتا۔ اُس کے تمام پہلوؤں کو بیان کرنے کے لیے فِکشن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ البرٹ کیمیو اسی خیال کو لے کر بیان کرتا ہے، ’’فِکشن ایک ایسا جھوٹ ہے، جس کے ذریعے ہم سچ کو بیان کرتے ہیں۔‘‘ اچھے اور کام یاب فِکشن کے بارے میں معروف ادیب، ڈیوڈ فوسٹر ویلس کی رائے ہے،’’اچھے فِکشن کا کام مضطرب کو سُکون دینا اور پرُسکون کو مضطرب کرناہے۔‘‘ جنوبی امریکا اور دنیا کے دیگربہت سے خطّوں میں Digital Detox week (عددی صنعتیات سے دُوری کا ہفتہ) منایا جاتاہے۔ اس میں ایک ہفتے کےلیے ٹی وی، کمپیوٹر اوردیگر برقی تفریحات کو بند کردیا جاتاہے۔ پورا خاندان اکٹھا ہوتاہے، کتابیں پڑھی جاتی ہیں، تفریح کے لیے جایا جاتا ہے اور اکٹھے وقت گزارا جاتا ہے۔ 

یہ عمل متعلقہ معاشروں میں نمایاں مثبت تبدیلی لے کر آرہا ہے۔ اس حوالے سے والدین خاصا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ اپنے بچّوں کو بٹھا کر منتخب کتاب پڑھ کرسُناتے ہیں۔ یوں بچّوں کی سوچ میں وسعت آتی ہے اور خاندان کے افراد کے درمیان تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ایک پیش رفت اور بھی ہو رہی ہے۔ خاندان کے افراد فِکشن یا نان فِکشن کی ایک کتاب منتخب کرتے ہیں، ہفتہ بھر اُس کا مطالعہ کرتے ہیں، بعد ازاں اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ یوں اُنھیں ایک دوسرے کے زاویۂ فکر سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور آپس میں صحت مندانہ مکالمے کی روایت بھی فروغ پاتی ہے۔

برصغیر میں ایسےصحت مندانہ مشاغل کو نسبتاً کم فروغ حاصل ہوا ہے۔ معاشرے میں شوقِ مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تحریر وسیع تر معاشرتی اثر پذیری کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ عموماً خوف زدہ، سہما ہوا اور معاشی استحصال کا شکار معاشرہ توّہم پرستی کی جانب جلد مائل ہو کر اس سے وابستہ ادب کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ ایسا ادب، جس میں اَن دیکھے مستقبل میں تدریجی ارتقائی معاشرتی عمل کے بغیر ہی اُمید کے بلب ٹمٹماتے ہوں اور ماورا کی جانب سے امداد کے سامان کی باتیں ہوں۔ ایسا ادب عمل اور خود اعتمادی سے محروم معاشروں کی دل پسند خوراک ہے۔ اگرہمارے ہاں فِکشن کے عملی طور پر معاشرتی اثرات کو دیکھا جائے تو قیامِ پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے فِکشن نے خال خال ہی واضح معاشرتی تبدیلی میں ٹھوس کردار ادا کیا ہے۔ گو تقسیم سے پہلے کا فِکشن موثر طور پر معاشرے پر اثر انداز ہوا۔

قبل از تقسیم و آزادی، ڈپٹی نذیر احمد نے معاشرتی اصلاح کے لیے ٹھوس نوعیت کے مقبول ناول مراۃ العروس (1869)، توبتہ النصوح (1877) اور بنات النعش (1873)لکھے۔ وہ علی گڑھ تحریک سے متاثر تھے۔ فِکشن نگاروں میں نذیر احمد اور شعرا میں حالی کی مخاطب گھریلو خواتین تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ معاشرے میں تبدیلی خاندان اور خاندان میں تبدیلی تعلیم یافتہ عورت لاسکتی ہے۔ اُس دور کے ذرا بعد راشد الخیری فِکشن اور دیگر اصنافِ اظہار میں سنجیدہ طورپرسامنے آئے۔ نذیراحمد کےبعد رتن ناتھ سرشار بھی زبانی داستان کو ناول کا روپ دیتے نظر آتے ہیں۔ عبدالحلیم شرر تاریخی ناولز کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا معاشرتی اصلاحی ناول کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا اُردو ادب میں نمایاں کردار رہا ہے۔ تحریک نے شاعری کے مقابلے میں فِکشن کو ترجیح دی۔ فِکشن میں بھی حقیقت نگاری کو اہمیت دی۔ پریم چند اس تحریک کے ابتدائی ادیبوں میں سے تھے۔ وہ 1914میں اردو سے ہندی زبان کی جانب منتقل ہوگئے تھے۔1932 میں ’’انگارے‘‘ نامی کتاب کے مصنّفین میں احمد علی، رشید جہاں، محمود الظفر اور سجاد ظہیر شامل تھے۔ 

انھوں نے حقوق نسواں، جنسیت اور طبقاتی و مذہبی استحصال کے موضوعات کومنتخب کیا۔ کہتے ہیں، تقسیمِ ہند نے اُردو کوخاصا دھچکا پہنچایا۔ ہند کا مسلمان گہرے جذباتی سانحے اور اقلیت میں رہ جانے کے احساسِ محرومی کے باعث دَب کر رہ گیا۔ اُردو سمٹ کر پاکستان تک محدود ہوگئی۔ اِسے مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا۔ البتہ تقسیمِ ہند نے موجود اُردو فِکشن کو ایک پہلو سے بہت متاثرکیا۔ فسادات و حادثات کی طُومار نے اس پودے کی جَڑوں کو سیراب کیا۔ اُردو افسانہ اور ناول حقیقت نگاری کے ایک بارآور دَور میں داخل ہوئے۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ فسادات اور تقسیم، جس نے اردو فِکشن کو جذباتی اور تخلیقی طاقت بخشی تھی، کیوں کر اِسی زبان کا فِکشن اس حدتک بےحِس ہوگیا کہ1971میں تقسیمِ پاکستان کے سانحے پر پہلے کی طرح فعال نہ ہوپایا۔

مغرب سے علامتی افسانہ درآمد کیا گیا۔ وہاں شرحِ خواندگی قابلِ رشک تھی۔ اس کے علاوہ صنعتی انقلاب، دو عظیم جنگوں اور جدید ایجادات کے باہمی انسانی تعلقات پر اثر اندازی کے باعث ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہاں کی زمین علامت کو شناخت کرنے، سمجھنے اور سراہنے کے لیے قابل ہوچکی تھی۔ اس کے برعکس پاکستان میں شرح خواندگی کم تھی اور معاشرتی حالات مغرب جیسے ارتقا سے نہ گزرے تھے۔ مغرب سے درآمد کیا گیا پودا اس دیس کی زمین میں جڑنہ پکڑ سکا، مقامی فِکشن اور قاری کے بیچ فاصلہ در آیا۔ ایسے میں چند ہوشیار لوگوں نے علامتی فِکشن، مختلف ذائقے اورگنجلک فلسفیانہ طرز کے فِکشن کی آڑ میں اپنی کہانی کہنے کی عدم صلاحیت کو چُھپا لیا اور سارا ملبہ قاری پر ڈال دیا۔ 

علامتی اور تجریدی فِکشن فرد کے اندرونی اور بیرونی عناصر کو ٹٹولتا اورسامنے لے کر آتا ہے، پر کیا اِس طرح اُس پر اثر انداز ہوتا ہے کہ اولاً قاری کی شخصیت اور ثانیاً ہمارے معاشرے میں تبدیلی لاسکے؟ اس کا سادہ سا جواب نفی میں ہوگا۔ اس دلیل کے جواب میں یقیناً بہت سے دلائل دیے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ علامتی اور تجریدی ادب کے معاشرے پر واضح طور پرقابلِ پیمایش اثرات مرتب نہ ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے 1984میں ’’کہانی کی واپسی‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان خوش کُن تھا۔ تیکنیکی لحاظ سے اِس بنا پر کم زور کہ کہانی تو بہرحال علامتی اور تجریدی فِکشن میں بھی موجود تھی، نحیف، خفتہ اوردرپردہ سہی۔پاکستان میں اُردو، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی کے علاوہ ہندی فِکشن بھی پڑھاجانا چاہیے۔ 

اگر ہم ہندمیں اُردو کے مذہب سے بالاتر ہوکر وسیع ترپھیلاؤ کے حامی ہیں تو ہندی کو کیوں کر مذہب کے خانوں میں بانٹتے ہیں؟زبان کو مذہب کی قید سے آزاد کردینا ہی اسے باثروت اور پرُاثر بناتا ہے۔ فارسی میں کیا کیا غیر مسلم دیو ہیں اور عربی میں کیا کیا کافر سحر کار اور بُنت کار ہیں۔ یقینا فِکشن شخصیت پر اثرانداز ہوکر معاشرے پراثرات مرتّب کرتا ہے۔ اس کے لیے فِکشن کا بامعنی اور پُراثرہونالازم ہے۔پاکستان میں ادب کے معروضی حالات میں اوّلین قدم ایسا فِکشن سامنے لانا ہے جو ’’نیا ادب‘‘ اور ’’مختلف ذائقہ‘‘ جیسی مہمل لیکن پرُفریب تراکیب کی اوٹ میں عام آدمی کے فہم سے ماورا تخلیقات پیش نہ کرے۔ عموماً عظیم ادب عوام و خواص دونوں میں مقبول ہوتا ہے۔ 

ماضی کے شیکسپیئر اور ٹالسٹائی سے لے کر حال کی ایلس منرو تک، سب اِسی زمرے میں آتے ہیں۔ کافکا سے لے کر بورخیس (جن پر علامت و تجرید کے پَرتو ہیں) ذہین قاری کے لیے قابلِ فہم ہیں۔ اُردو میں بیدی سے لے کر محمّد خالد اختر تک، سب نے ایسا فِکشن تخلیق کیا، جو عام آدمی کے دائرہ تفہیم میں بخوبی آتا تھا اور وہ ایسی تحریروں سے وابستگی محسوس کرتا تھا۔ حاضر کے فِکشن کا حقیقت نگاری پر مبنی، دل چسپ اور توجّہ طلب، عام قاری کی زندگی سے علاقہ رکھنا اور جدید مسائل ومعاملات سے منسلک ہونا اہم ہے۔ ماضی کے اہم مدیران محمّد طفیل اور احمد ندیم قاسمی اور آج کے جرائد کے نمایاں مدیران، محمّد سلیم الرحمان اور اجمل کمال کہانی کے رَس سے بھرے فِکشن کے نبّاض اور قائل رہے ہیں۔

فِکشن کے مطالعے کی ہمہ گیر اہمیت سمجھتے ہوئےچندامورکوملحوظِ نظر رکھنا مستحسن معاملہ ہوگا۔ منڈی اور معیشت کے دو اہم عوامل طلب اور رسد کی طرح فِکشن میں بھی یہ دوعناصر دیگر کے علاوہ کار فرما ہیں۔ طلب میں اضافے کے لیے پنیری پرکام کرنا ضروری ہے۔ یعنی بچّوں سے متعلق ایسا ادب تخلیق کرنا اوراُسے ان کی تعلیمی و تدریسی نظام کا درجہ بدرجہ حصّہ بنا دینا، جو نہ صرف اُن کاشوق مہمیز کر دے بلکہ جدید نظامِ زندگی سے بھی متعلق ہو۔ فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہ ہو، تو جدید بین الاقوامی فِکشن کے اردو تراجم یہ ضرورت کچھ حد تک پوری کرسکتے ہیں۔ بچّوں کے ادب کو مزید توجّہ کی ضرورت ہے۔ 

کلاسیکی کہانیاں ایک نو آموز کو روایت سے تو ضرور جوڑتی ہیں، پر جدید طرز ِحیات سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث بچّے میں احساسِ اجنبیت پیدا کرتی ہیں اور مطالعے کو ایک پرُشوق سرگرمی کے بجائے زحمت بنا دیتی ہیں۔ کلاسیکی ادب کو بتدریج مطالعے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ترقی یافتہ دنیا میں لازمی نصاب کے علاوہ کہانیاں اور ناول طلبہ کو مطالعے اور بعد ازاں مباحثے کے لیے دیےجاتے ہیں۔ یوں ان میں مطالعے کا شوق اور تجزیے کا ذوق جنم لیتا ہے۔ یہی معاملہ ہمارے ہاں ترویج پاجائے تو چند برسوں میں قارئین کی ایک جماعت اُبھر کر سامنے آجائے گی۔ ایسے میں یہ خیال رکھنا اہم ہے کہ اصلاحی نوعیت کے کلاسیکی ادب کے علاوہ، جو بچّے کو روایت سےمنسلک کرکےاس میں اپنی تہذیب سے لگائو پیدا کرے، تفریحی مزاج کا ادب بھی دسترخوان پرچُنا جانا چاہیے۔ اس طرح جدید ادب کی بڑھتی ہوئی طلب، رسد کو بھی جنم دے گی۔ 

رسد کے لیے وسیع پیمانے پر ادب کی تخلیق اس شعبے میں معاشی سرگرمی کے پہیے کی رفتار کو تیز کرنے کا باعث بنے گی، جو ادیب کے لیے معاشی خودکفالت لاسکتی ہے۔ مسائل سامنےآئیں گے تو ان کےحل جنم لیں گے کہ حل خلا میں وجود نہیں پاتے۔ درحقیقت اعلیٰ فِکشن کی تخلیق ہی معاشرتی سطح پر ایسی تہذیبی بہتری لاسکتی ہے اور پاکستانی معاشرے کو عالمی برادری کا معزز رُکن بناسکتی ہے، جو باعثِ اطمینان ہو۔ چلّی جیسے تیسری دنیا کے جنوبی امریکی مُلک کی پہچان اس کا ہر دل عزیز شاعر، پابلونیرودا ہے، کولمبیا کو دنیا نوبل انعام یافتہ ادیب، گبریل گارشیامارکیز کے حوالے سے جانتی ہے، آہنی پردے کے پیچھے چُھپے مُلک، چیکوسلواکیہ کا دہائیوں تک چہرہ اُس کا جلا وطن ادیب، میلان کنڈیرا رہاہے اور دنیا آج بھی بنگال کی عزت اس کے عظیم بیٹے، رابندر ناتھ ٹیگور کی وجہ سے کرتی ہے۔ سو، جدید تہذیب یافتہ دنیا میں قومی وقار قائم کرنے کے ذرائع میں سے ایک عُمدہ ذریعہ اعلیٰ ادب کی تخلیق ہے اور اعلیٰ ادب کی تخلیق کا پہلا زینہ مطالعۂ ادب ہے، جو جہاں شناسی سے خودشناسی تک لے جاتا ہے۔

تازہ ترین