• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں لوگوں نے دور جاہلیت میں سال میں کھیل کود کے لیے دو دن مقرر کر رکھے تھے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ارشاد فرمایا تم لوگوں کے کھیلنے کودنے کے لیے جو دو دن مقرر تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی۔ اللہ تعالیٰ نے لہو و لعب کے وہ دو دن ذکر و شکر اور مغفرت و درگزر میں بدل دیے، اس طرح مومن کے لیے دنیا میں تین عیدیں ہیں، تیسری عید جمعہ کا دن ہے۔ عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ عید کا دن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمایا۔ سو! جو جمعہ کے لیے آنا چاہے تو غسل کرلے اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے اور تم پر مسواک بھی لازم ہے۔ عید الفطر، مسلمان رمضان کے روزے مکمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے مکمل کرنے پر عید مشروع کی ہے اس عید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر صدقہ فطر (فطرانہ) اور نماز عید مشروع کی ہے۔ عید میں مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا اور ذکر کرنے کے لیے جمع ہوتے اور اس کی اس طرح بڑائی بیان کرتے ہیں جس پر انہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب فرمائی ہے۔ عید الاضحی دس ذی الحجہ کے دن حج کے مکمل ہونے کے بعد آتی ہے، یہ دونوں عیدوں میں بڑی اور افضل ہے جب مسلمان حج مکمل کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردیتا ہے۔ اس لیے حج کی تکمیل یومِ عرفہ میں وقوفِ عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کا ایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا فرمان مبارک ہے:یومِ عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہر شخص کو آگ سے آزادی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ وقوفِ عرفہ کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:’’میرے بندوں کو دیکھو کہ یہ میرے دربار میں گرد اور غبار آلود ہوکر پہنچے ہوئے ہیں، یہ میری رحمت کے طلبگار ہیں،یہ میرے عذاب سے خائف ہیں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انکی مغفرت کردی‘‘۔ ہمارے ہاں ایسی مقدس، متبرک اور رحمتوں والی عید کو ’قصابوں‘ کی عید کہا جاتا ہے۔ لوگ عید آنے سے قبل ہی قصابوں کی بکنگ کروا لیتے ہیں تاکہ عید کے روز کسی بھی پریشانی سے بچا جا سکے، جنہیں عید کے دن تک کوئی قصاب نہیں ملتا، انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اک عجب اضطراب آلیتا ہے کہ صرف قصاب میسر نہ آنے سے سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی جاتی ہے۔ عید الاضحی پر قصاب کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ قصاب جیسے جانور کی کھال اتارتے ہیں ایسے ہی اپنے رویوں سے آپ کی کھال بھی کھینچتے اور نوچتے ہیں۔ جانوروں کو ذبح کرنے اور گوشت کی تیاری کیلئے قصاب عید کے تینوں دن منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔ عیدالاضحی کے ایام میں ایک بڑی تعداد قربانی کے جانوروں کیلئے قصابوں کی خدمات حاصل کرتی ہے جبکہ بہت سے افراد اپنے جانوروں کو خود بھی ذبح کر لیتے ہیں۔ قصاب حضرات مختلف رویے رکھتے ہیں اور الگ ہی طبیعتوں کے مالک ہوتے ہیں اور انکی طبیعت کی کیفیت بدلتے دیر بھی نہیں لگتی۔ یہ کسی بھی وقت کسی کو بھی ایسے ایسے القابات سے نواز سکتے ہیں جن کی تخلیق عین اسی وقت ہوتی ہے جنکے معنی و مفاہیم سمجھتے آپ کو وقت درکار ہوتا ہے لہٰذا ان سے بات کرتے احتیاط لازم ہے۔ کچھ قصاب تو بڑے نفیس ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر انکی چھریوں سے جانور بچتے ہیں نہ ہی ان کی زبان سے لوگ۔ معاف کیجئے گا بعض قصاب بڑے نرم خو بھی ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ گاہکوں سے ایسے ایسے رشتے جوڑتے ہیں کہ توبہ توبہ خدا خدا کیجئے۔ یہاں مجھے ایک جاننے والے صاحب یاد آگئے جو ہیں تو قصاب لیکن خود کو راجپوت کہلوانا پسند کرتے ہیں اور اپنے قریبی عزیزوں سے محض اس لئے دامن بچاتے ہیں کہ اب وہ راجپوتی جذبوں کی پرورش کررہے ہیں لیکن ان کی زبان کے کمالات سے انکے اہلِ خانہ، اہل محلہ، دوست احباب بھی محفوظ نہیں، اپنی زبان کا برملا استعمال کئے بغیر ان کی طبیعت سیراب نہیں ہوتی۔ مغلوں کے زوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ شہزادے انگریزوں اور دوسروں کے ظلم سے بچنے کے لئے اپنا تعارف مخفی رکھتے لیکن انکے اطوار سے شہزادوں کی نزاکت جھلکتی تھی، ایسا ہی کوئی حالات کے ستم کا مارا شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا کسی طعام خانہ میں ’مطعمِ‘ بن گیا، کچھ لوگ کھانے کے لئے آئے تو اس نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن انداز شاہانہ تھے، گاہکوں نے جل کر کہا ہو تم نوکر اور حرکتیں تمہاری شہزادوں جیسی ہیں، انہیں کیا معلوم کہ وہ تو واقعی شہزادہ ہے، ایسے ہی راجپوت بننے کی سعی ناکام کرنے والے قصاب صاحب بنتے راجپوت ہیں لیکن ان کی زبان قصابوں کے رویوں کی امین ہے۔ بار دگر معذرت کا خواستگار اور عرض گزار ہوں کہ کچھ قصاب نہایت بھلے مانس بھی ہیں جنکے کردار اور قول و فعل سے ولیوں کی شان چھلکتی ہے، یہ صرف قصابوں پر ہی کیا موقوف، یوں تو کسی کو کسی سے کوئی کام پڑ جائے تو بعض متعلقہ حضرات ضرورت کے وقت پہاڑ پر جا بیٹھتے ہیں لیکن خاص طور پر عیدالاضحیٰ کے موقع پر قصاب حضرات تو پہاڑ کی آخری چوٹی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔

تازہ ترین