ڈاکٹر شاہ عالم
بہادر شاہ ظفر کی شاعری اس عہد کے دیگر شعراء کے مقابلے میں اپنے عہد کے مسائل سے زیادہ قریب تھی۔وہ جس سیاسی انحطاط اور باطنی آشوب سے دوچارتھے، اس کی تصویر ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے،مغلیہ سلطنت کا زوال انگریزوں کا روز افزوں اقتدار، شاہی خاندان کی بے بسی ان کے لیے بہت بڑا المیہ تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے یہاں اپنے عہد کے سیاسی خلفشار اور سماجی صورتِ حال کا بیان معروضی یا سپاٹ اندازمیں نہیں ملتا۔ ان واقعات کی جڑیں ان کی روح میں پیوست تھیں۔ ایک طرف اجتماعی اور انفرادی مسائل کا بوجھ تھا تو دوسری طرف ان کی طبیعت کے خاص میلان نے ان کی شاعری میں مایوسی اور حزن کی ایک خاص کیفیت پیدا کردی تھی۔
بہادر شاہ ظفرکی شاعری سے ایک ایسا کردار ابھرتا ہے، جس کی ہر سانس میں درد و غم کی لہریں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ کردار ان کی ابتدائی شاعری میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ اسی حوالے سے وہ اپنی روداد بیان کرتے ہیں۔ غدر کے واقعات تو دل دوز تھے ہی لیکن بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں اس دردانگیز قصے کی شروعات شاعری کے آغاز میں ہی ہوچلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ ان حالات کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس ذہنی ماحول میں گھر چکے تھے جو 1857 کے ساتھ مرتب ہوا۔
مثال کے طور پر دیوانِ اول میں ایسے اشعار بہ کثرت موجود ہیں، جن میں انھوں نے اپنے آشوب اور اذیت کا اظہار کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اشعار نہیں بہادر شاہ ظفر کے باطنی منظرنامے کے اوراق ہیں جن پر اداسی کے تمام رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ چند اشعار ملاحظ کیجیے:
شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے
اڑ کے جاسکتا نہیں تا سر دیوار چمن
دام صیاد سے چھوٹا بھی تو میں کیا چھوٹا
گئی نہ مر کے بھی میرے نصیب کی گردش
کہ سنگ قبر مرا سنگ آسیا ٹھہرا
پھرے ہے پارۂ دل دیدۂ پرآب میں یوں
جلا کے چھوڑ دے جیسے کوئی بھنور میں چراغ
سوزشِ دل کو ہیں کیا خاک بجھاتے میری
مجھ کو رسوائے جہاں دیدۂ تر کرتے رہے
یہ اشعار ان کی ولی عہدی کے زمانے کے ہیں اوران کی اس کیفیت کے خارجی اسباب بھی تھے۔ بادشاہت کا زمانہ تو مختلف مسائل سے بھرا ہوا تھا ہی ولی عہدی کا زمانہ بھی شدید ذہنی اور روحانی کشمکش میں گزرا۔ان کی شاعری میں صیاد و قفس، زنجیر و زنداں، بلبلِ تصویر وغیرہ کاا ستعمال انھیں حالات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ان استعاروں کو نئی تخلیقی قوت اور معنوی گہرائی عطا کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہبانوں کو
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
برپا نہ کیوں ہو خانۂ زنداں میں زور غل
میرے جنوں سے اب تو سلاسل پہ بن گئی
ظفر کس طرح کوئے یار میں جاؤں کہ پاؤں میں
مرے ہر ایک موج اشک نے زنجیر ڈالی ہے
ان کی بے بسی اور افسردگی کا خوبصورت اظہار بلبلِ تصویر کے اس استعارے سے ہوتا ہے ،جسے انھوں نے اپنے ایک معروف شعر میں استعمال کیا ہے۔
اے صبا ہوں بلبلِ تصویر مجھ کو کیا غرض
کب بہار آئے ہے گلشن میں خزاں کب جائے ہے
بہادر شاہ ظفر کی شاعری کا دوسرا حصہ حسن و عشق کے موضوعات پر مبنی ہے۔انہوں نے غزل کی مستحکم روایت کو نہایت سلیقے اور فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں تغزل کی چاشنی موجود ہے۔ غزلیہ شاعری کے جملہ اوصاف اور عناصر ان کی شاعری میںنمایاں ہیں۔ شاعری میں محبوب کے پیکر اورعشق کی مختلف کیفیات کا اظہار بڑی مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ہجر کی تڑپ اور وصال کی لذت اور محبوب کے عشوۂ ناز کا بیان بہت دلکش ہے۔وہ اپنے شعروں میں جو تجربات بیان کرتے ہیں اسے پہلے اپنے جذبہ و احساس میں تحلیل کرتے ، اس لیے ہر تجربہ ان کا ذاتی تجربہ بن کر سامنے آتا ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاعر خیال آرائی نہیں کررہا ہے بلکہ اپنے تجربات قلم بند کررہا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیئے
اٹھ گیا میری زباں پر سے جہاں کی لذت
جو مزہ عشق میں پایا مرا جی جانتا ہے
یوں تو پروانہ بھی جل جائے ہے پر مشکل ہے
عشق میں میری طرح سوختہ جاں ہوجانا
کہیںا یسا نہ ہو کھل جائے دل کا راز محفل میں
ہماری آنکھ پھر اس رونقِ محفل سے ملتی ہے
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
کردیا اک نگاہ میں جادو
چشم کافر ہے کیا خدا جانے
ان کے کلام میں مختلف رنگ کے موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً حسن و عشق، تصوف، اخلاقی قدریں، سیاسی معاملات اور قصے لیکن ان کا بنیادی سروکار اپنی غم آلود زندگی سے ہے۔ اس نوع کے کلام میں تاثیر بہت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کلام کے اسی رنگ پر ان کی انفرادیت کا انحصار ہے۔ انہوں نے مشکل زمینوں میں بھی شاعری کی اور مرصع سازی کا کام بھی انجام دیا جواس عہد میں شاعر کے قادرالکلام ہونے کا عام پیمانہ تھا۔ عوامی زبان کی شاعری میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔
زبان و بیان کے اعتبار سے بہادر شاہ ظفر کو اس میدان میں بھی کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ مرزا غالب بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے، ان کے مرتبے کو ان کے معاصرین کیا ،بعدمیں بھی کوئی نہ پہنچ سکا لیکن اس حقیقت کے باوجود اس عہد میں معاصرین غالب کا ادبی مرتبہ ایسا نہیں، جسے نظراندازکیا جاسکے۔