• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانوں کی بہتر رہنمائی کیلئے سوشل میڈیا کا موثر استعمال ضروری ہے

سحرش افتخار

عصرِ حاضرکو سوشل میڈیا کا دور کہا جاتاہے، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی اور ریڈیو کو جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس لئے زیادہ اہمیت نہیں دیتے،کہ اس میں ان نوجوانوں کو دوسروں کی بات سننی پڑتی ہے۔جبکہ دور جدید کے نوجوان سننے سے زیادہ سنانے کے شوقین ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ریڈیواور ٹی وی ان نوجوانوں کو وقت کی پابندی پر مجبور کرتا ہے یعنی کسی بھی پروگرام کو دیکھنے یا سننے کے لئے اس کے مقررہ وقت کی پابندی لازمی ہے۔ 

پابندی وقت کے بغیر آپ اس سے مستفید یا محظوظ نہیں ہو سکتے ہیں، جبکہ ہمارے نوجوان وقت کی پابندی کو غلاموں کا شیوہ سمجھتے ہیں اور وہ خود کو غلام نہیں بناناچاہتے ہیں،اس لئے وہ خود کو ان بکھیڑوں سے آزاد تصور کرتے ہیں،نوجوانوں کے نزدیک آزادی کا مطلب ہے والدین کی پابندیوں سے آزادی، اساتذہ کی سختیوں سے آزادی، کالج اور یونیورسٹیوں کے اصولوں سے آزادی، اپنی تمام روایات اور اقدار سے آزادی،ملکی قوانین سے آزادی، حتیٰ کہ دن ،رات کی قید سے بھی آزادی ۔

اگر ان کے بس میں ہوتو شاید وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اوقات کار ہی سرے سے تبدیل کردیتے۔سوشل میڈیا کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کو ٹی وی اور ریڈیو کے برعکس صرف وہ باتیں دیکھنا یا سننا ہوتی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔یہ ان اشخاص یا گروہوں سے منسلک ہوتے ہیں جو ان کے ہم مزاج ہوتے ہیں، اور آج کل تو یہ بات بھی مشہور ہے کہ پہلے نیکی بدی بیمارپرسی وغیرہ بدلے پہ ہوا کرتے تھے یعنی اگر آپ نے کسی کی عیادت کی، کسی کی غمی خوشی میں شریک ہوئے تو کل وہ بھی آپ کے غم و خوشی میں شریک ہوگا لیکن آج کل سوشل میڈیا میں لائک، کمنٹس ، شئیر اور ری ٹویٹ بھی بدلے پر ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی اہم یا بہت ہی خوبصورت تصویر یا پوسٹ پر لوگوں کے کمنٹس لینے ہےتو اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ روزانہ دو تین گھنٹے صرف کر کے دوسروں کی تصاویر اور پوسٹوں پر لائک اور کمنٹس کر لیا کریں،خواہ وہ پوسٹ یا تصویر بے ہودہ اور غیر مفید ہی کیوں نہ ہو۔

اب آتے ہیں ذرا سوشل میڈیا کی اہمیت اور پاکستان میں اس کے استعمال کی طرف۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ یہ بیک وقت سیکڑوں بلکہ ہزاروں انسانوں کے ساتھ سماجی رابطے کا آسان اور سستا ترین زریعہ ہے۔ یہ خواص کے بجائے عوام کی آواز ہے، یہ کمزور کی آواز ہے جسے زیادہ لائک شئیر اور کمنٹس طاقت ور بناتے ہیں، لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جس طرح ہمارے باقی ملکی اداروں،محکموں،سیاسی جماعتوں وغیرہ میں نظم و نسق اور اصول و ضوابط معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ قوانین کی پابندی کو اب پسماندگی اور کمزوری سمجھاجاتاہے یہی حال ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا بھی ہورہا ہے۔ نہ اس کے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ کوئی واضح اصول اور نہ ہی غلط استعمال پر کوئی جرمانہ یا پابندی، یہی وجہ ہے کہ سماجی رابطے کے یہ تمام ذرائع یعنی فیس بک ، ٹوئٹر ، اسکائپ اور وائبر وغیرہ کا انتہائی غلط استعمال ہورہا ہے۔

دنیا بھر میں یہ ذرائع فاصلے مٹانے، محبتیں بڑھانے،شعور پیدا کرنے، رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو ان سوشل کاموں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ فرقہ پرستی اور نفرت پھیلانے کا وہ تمام مواد جسے آپ پھیلانا تو درکنار کسی بھی پرنٹنگ پریس سے شائع تک نہیں کروا سکتے ہیں ۔ یہاں انتہائی آسانی اور سہولت سے پھیلایا جا رہا ہے کیونکہ اب ان ذرائع کی موجودگی میں اسے شائع کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ 

ہر شخص کسی بھی سیاسی یا مذہبی رہنماء کو نفرت انگیز انداز میں مضحکہ خیز شکل میں بناکر شیئر کرتا ہے اور پھر تمام دوست اس پر اپنی پسند کی کمنٹس کرتے جاتے ہیں۔ کہیں کسی سیاسی رہنماء کو خیرات منگواتے تو کہیں ان سے کپڑے دھلوائے جاتے، یہ اور اس قسم کی مزید ہزاروں وہ باتیں جو مہذب معاشروں میں نہیں ہوتی ہیں، ہمارے ہاں انہیں سوشل میڈیا کا لازمی جز بنایا گیاہے۔ کہیں پرلادینیت کی تبلیغ کی جاتی ہے تو کہیں ایک مذہب یا فرقے کے دیوانے دوسرے مذہب یا فرقے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، کہیں پر اسے دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس بات پر تو کمپرومائز کیا جا سکتا ہے کہ ہر شخص اس کو اپنی مرضی اور فائدے کے لئے استعمال کرےگا ۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی موجودہ شرح ، سیاسی افراتفری اور شعور کی کمی اس بات کی غماز ہے کہ ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک قوم میں خود اس حوالے سے شعور نہ آجائے۔ لیکن سوشل میڈیا کو ان سوشل سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنا صرف غیر اخلاقی نہیں قانوناً جرم ہونا چاہیے اور اس کی نشاندہی اور سدباب کے لئے میکینزم بنانا اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا وقت کا تقاضا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں اس جدید مگر اہم ترین مسئلے کی جانب کب توجہ مبذول ہوتی ہے، تاکہ قوم کے نوجوانوں کی بہتر رہنمائی کی جا سکے۔

مثل مشہور ہے کہ آگ کے جلے کا علاج آگ ہی سے کیا جاتا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو واقعی سماجی یا فلاحی کاموں کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ آگے آئیں اور اسی فورم کے ذریعے ایک باقاعدہ منظم اور مسلسل مہم چلاکر اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ آج کل پاکستان میں ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں نوجوان کسی نہ کسی حد تک سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ 

ان میں بہ مشکل پانچ فیصد نوجوان اسے پیشہ ورانہ کاموں کے لئے، پانچ فیصد کاروباری مفادات کے لئے،تقریباً دس فیصد دوستوں یا رشتہ داروں سے گفتگو کے لئے جبکہ باقی اسی فیصد سوشل میڈیا کو فقط( ٹو بی کنیکٹ) یعنی غیر ضروری طور پر باہمی رابطے اور وقت گزاری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے مثبت استعمال کے لیےحکومت اور متعلقہ اداروں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے،اس کے لئے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات ضروری ہیں کیونکہ کسی بھی چیز کا غلط استعمال روکنے کا طریقہ اس چیز پر پابندی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس طرح اس کے مثبت استعمال کرنے والے لاکھوں لوگ بھی اس کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔

تازہ ترین