محمد نعیم شہزاد
کچھ روز پہلے سفر کے لیے نکلا تو دوران سفر ایک تعلیمی ادارے کی دیوار پر لکھے گئے ،شاعر مشرق اور ایک ملی نغمے کے اشعارپڑھے،
شاعر مشرق کے اشعار تھے،
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال ؒکے شاہین اور قائداعظم ؒکی امیدوں کے محور و مرکز نوجوان، جنہیں قائداعظم ؒاور اقبال ؒ قوم کا سرمایہ ، معمار اور مستقبل کہتے تھے ۔ہمارے اسلاف کو اس ملک کے نوجوانوں سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں ، قائداعظمؒ چاہتے تھے کہ نوجوان سیاست میں شامل ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں لیکن افسوس قیام پاکستان کے بعد ہماری وڈیرہ شاہی اورہماری اشرافیہ نے نوجوان نسل کوروکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے ،ان کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تعلیمی اداروں میں بھی استعمال کیا گیا، ان کو استعمال کرکے اپنی گندی سیاست کا بازار چمکایا گیا، نوجوان نسل کو ایسے مشغلے ایسا نصاب اور ایساکلچر دیا گیا کہ وہ قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے ۔
ہمارے نوجوان جن کے ہیروز قائداعظم، علامہ اقبال، خالد بن ولید اور محمد بن قاسم ہونے چاہیے تھے، آج ان کے ہیروز غیر مسلم ہیں آج۔ وہ پڑوسی ملک کے کلچر کے دلدادہ بن چکے ہیں۔ آج کا نوجوان اس ملک کے حالات کو دیکھ کر صرف کڑھ سکتا ہے کیونکہ اسے مجبوریوں میں ایسے مقید کردیا گیا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اعلی ڈگریاں لے کر اسے سڑکوں پر ذلیل کیا جارہا ہے حالانکہ اسی ملک میں جعلی ڈگریوں والے اونچی اونچی اقتدار کی کرسیوں پر فائز ہیں۔
آج کا نوجوان اس ملک سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، آج ہماری نوجوان نسل بیرون ملک کے خواب دیکھتی نظرآتی ہے۔ رشوت ، سفارش اور اقربا پروری کے زہر نے اسے ملک سے بدظن کر دیا ہے،
حالانکہ یہ ملک ٹیلنٹ کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔ ارفع کریم جیسے نام ہماری نوجوان نسل کے لیےتابندہ مثال ہیں۔ بس آج کے نوجوان کو اچھی اور مخلص لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اچھی لیڈر شپ ہی نوجوانوں کو قومی دھارے میں لا سکتی ہے اور ان شاءاللہ میں اس بات سے بالکل مایوس نہیں۔ آج کا نوجوان ضرور اس ملک کو دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی عنایتوں سے بچائے گا اور ہم من حیث القوم آپس کے تمام اختلافات کو چاہے و ہ فرقہ بندی کے ہوں، لسانی ہو ں،جیسے بھی ہو ں،بھلا کر، ایک ہو کر ،اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے،یہ وقت دور نہیں۔
دوسرے ملی نغمے کا یہ شعر درج تھا،’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم اس پرچم کے سائے تلے کہاں کہاں ایک ہیں؟ہم تو اپنی اپنی برادریوں اور سیاسی وابستگیوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ہم غیر برادری اور سیاسی کارکنوں سے الجھنے والے اور سیاسی تماش بینوں کے لیڈروں کے دفاع میں ملکی مفاد اور ملک کی املاک کو نقصان پہنچانے کا سبب بن کرنعرہ لگانے والے ہیں کہ،’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘۔ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح اور ایک قوم بن کر ملکی ترقی کے لیے کام کرنا چاہئیے تاکہ ہم یہ کہنے میں ذرا بھی شرم اور جھجک محسوس نا کریں،کہ’’ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘۔