محمد فاروق دانش
آزادی ایک نعمت ہے ،اس کی قدر اُن افرادکو ہی ہوسکتی ہے، جنہوں نے غلامی کے دُکھ جھیلے ہوں یا جواس نعمت سے محروم رہے ہوں۔ پاکستان کی آزادی ، بلا شبہ ہمارے لیے کسی ان مول نعمت سے کم نہیں ۔قوموں کی تشکیل عوام کے ذریعے ہوتی ہے ،کسی ملک کی آبادی میں ہر فرد کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے،تاہم نوجوان نسل کی اہمیت اور ذمے داری کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی علمی ، اخلاقی اور جرات مندانہ قوت کی بہ دولت اپنے وطن کی بقا میں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔پاکستان اس لحاظ سے مالامال ہے کہ اس کی 60 فی صد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ قیام پاکستان سے لے کرتہتربرس گزر جانے کے باوجود ہر دور میں نوجوانوں کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔
پاکستان کرہ ٔاراض کا واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے اس نظریہ کو منوانے کے لیےاسلامیان ہند نے جو اَن گنت قربانیاں دیں ،اقوام عالم کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے ایک قائد کی قیادت میں اس نظریہ کی بنیاد پر کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ، جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے،پاکستان حاصل کیا ۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں یا قومیت میں ضم ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔
اس کا انداز بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی اس تقریر سے کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے 8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبہ کے اجتماع میں کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا۔
’’پاکستان اس دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم، مسلمان ہوا تھا۔‘‘
یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا ۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے ۔یہ خالق ِکائنات کی اس عظیم حکمت ِعملی کا حصہ ہے ۔پاکستان کے قیام کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دو ٹوک انداز میں فرمایاتھا:
’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ
ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں‘‘۔
قیام پاکستان کے وقت قائداعظمؒ کے دست و بازو وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان ہی تھے، جنہیں قائد اپنا فخر اور اثاثہ سمجھا کرتے تھے۔ آپ ناصرف خود طلبہ اجتماعات میں بہ خوشی شریک ہوتےبل کہ ولولہ انگیز گفت گو کے ذریعے ان میں حب الوطنی کا جذبہ اور آزادی کی تڑپ پیدا کرتے۔
کسی بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشرے میں نوجوانو ں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ نوجوان کی سمت کی بدولت ہی کوئی بھی ملک ترقی اور زوال کی منازل طے کرتا ہے۔ اُن کاکردار معاشرے میں مثبت ہوگا تو یقیناً سماج ترقی کی طرف سفر کرے گا، لیکن یہی نوجوان منفی رجحانات کی طرف راغب ہوں تو معاشرہ زوال کی طرف گامزن ہوگا۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کی معاشرے میں اہمیت اور افادیت کو اجاگر اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ ایک ایسی ریاست اور حکومت کا تصور سامنے لاتاہے، جہاں نوجوانوں سمیت عام آدمی کے بنیادی حقوق اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہوتا ہے۔
برصغیر میں جب نوجوانوں میں نظریاتی سیاست کا آغاز ہوا تو ابتدائی دور نیشنل ازم تھا، جس سے طلبہ دائیں بازو اور بائیں بازو میں تقسیم ہوگئے، اس نظریاتی تصادم کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ میں اپنے نظریات کے دفاع کے لیے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا کہ نظریہ کی بنیاد پر سماج اور اس کی ساخت کا تجزیہ کیا جائے۔ اس عمل نے نوجوانوں کو ذہنی طور پر پختہ بنایا اور جب وہ تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی میں آئے تو انھوں نے سیاست اور سیاسی جماعتوں کی رہنمائی کی۔ انہوں نے سیاسی عمل کے اس تسلسل کو جاری رکھا۔ جمہوری اقوام طلبہ کے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں کہ انہیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے، لیکن آمرانہ اور جابرانہ سوچ کے حامل طبقے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اس عمل سے دُور رکھا جائے۔
پاکستان میں موجود دانش ور اور تعلیم یافتہ افراد کا ایک طبقہ طلبہ کے سیاست سے دور رہنے کا بھی قائل ہے جب کہ بیشتر افراد طلبہ کی سیاست میں براہ راست شرکت کی حمایت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کا سیاست میں حصہ لینااُن کا بنیادی حق ہے، جس سے انہیں کسی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اس نظام کی مزید بہتری کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی مجموعی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو ہر تحریک یا جدوجہد کے پیچھے نوجوان اور بالخصوص طلبہ ہی کارفرما نظر آئیں گے۔ زندگی کے ہر شعبے میں متحرک، باصلاحیت اور ذہین افراد کہیں نہ کہیں طلبہ سیاست کا ہی شاخسانہ ہوں گے ۔ سیاست کے علاوہ اہم بیورو کریسی، میڈیا، ادیب، دانشور، اساتذہ، تاجر اور مذہبی رہنما سب نوجوانوں کی مثبت تعمیری سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں۔
آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے 14 اگست کو آزادی حاصل کی۔ کس سے حاصل کی، کیوں حاصل کی، اور کیسے حاصل کی،ان بنیادی سوالات سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اس روز ایسے بینر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں، جن پر آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس بے خبری کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ آزادی کا تصور محض ایک خالی خولی نعرے میں تبدیل ہو گیا ہے اور ظاہری ٹیپ ٹاپ، دکھاوا، ہلڑ بازی اور تماشااس دن کی پہچان بنتاجا رہا ہے۔
ہم سارا سال پاکستان کی کمزوریوں پر مباحث میں اُلجھے رہتے ہیں جو خصوصاً اگست کے مہینے میں مزید دھواں دھار صورت اختیار کر لیتی ہیں، لیکن اگر سال میں ایک دن یہ بھی سوچ لیا جائے کہ گزشتہ ایک سال میں ہم نے ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کیا کیا؟ ہمارا کون سا عمل صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کے لیے تھا؟ کیا ہم اپنے وطن کی درست انداز سے خدمت انجام دے رہے ہیں؟ کیا نوجوانوں کی تربیت اور انھیں آزادی کی اصل اہمیت سے آگاہ کرنے کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں تو شاید ہمیں اپنی کم زوریوں کا بھی احساس ہو جائے اور ہمارا وقت بہت سی بے مقصد باتوں میں ضائع نہ ہو۔
14 اگست ایک خاص اہمیت کا حامل ،حب وطنی کےجذبے سے بھرپور ایک خاص دن ہے۔ ایک ایسا دن جس کا بچوں اور نوجوانوں کوعید کے دن کی طرح ہی انتظار ہوتا ہے ۔ اس دن ان کا جوش اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے۔گھروں ، چھتوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کو لوگ سجانا شروع کر دیتے ہیں ۔ یوم آزادی 14 اگست کے لیے بیجز، خصوصی لباس بھی تیار کرائے جا رہے ہیں۔ ان تمام تیاریوں میں ان کی وطن کے لیے محبت جھلک رہی ہے۔ہر انداز سے قومی شعور اور آزاد مملکت کے باشندے ہونے کا بھر پور اظہار کیا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نوجوان دنیا کے کسی ملک میں بھی قیام پذیر ہوں ،ان سب کے دلوں میں وطن عزیز پاکستان کی محبت بدرجہ اتم موجود رہتی ہے ۔
اس محبت کا وہ بر ملا اظہار بھی کرتے ہیں ،عصر حاضر کا سب سے معروف متحرک سوشل میڈیا ہے ، آپ اس کا وزٹ کریں تو پاکستانی نوجوانوں کی IDپر پاکستانی پرچم دکھائی دیں گے ۔یہ نوجوان پاکستان کی چھوٹی بڑی خبروں کو اجاگر کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی نوجوانوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تحریک پاکستان اور قیام پاکستان سے متعلق ویڈیوز اور نادر تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس سے اس بات کااندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے پاکستانی نوجوان اس عظیم الشان د ن کی اہمیت سے اچھی طرح باخبر ہیں اور اس دن کو بھر پور طریقے سے مناتے بھی ہیں۔
یہ بات ضرور ہے کہ جشن آزادی جیسے قومی جوش وجذبے والے تیوہار پر نئی نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آشنا کرنا اور بانیان پاکستان کے دن قومی جوش و جذبے سے منانادراصل انہیںقیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ منسلک رکھنے کا فریضہ سنبھالے رہنے کی ایک سعی ہے۔نو جوانوں کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی دراصل اس جذبے کے فروغ دےگی ۔ زندہ قوموں کی طرح متحرک نظر آکر حکومتی سطح پر ایسا جذبہ اجاگر کرنا لازمی امر ہے۔ عوامی سطح پر بھی جشن آزادی منانے کا جذبہ پیدا کرنا ازحد ضروری ہے۔
چوں کہ اس سال کووڈ 19 کے باعث حالات نارمل نہیں اس لیے ہم ان دیگر تقاریب یا جشن کا ذکر خیر نہیں کر رہے جو تعلیمی اداروں ، سرکاری یا دیگر نجی اداروں کے زیر انتظام ہوا کر تی تھیں۔ اب کی بار ہم اپنی عید اور جشن آزادی سادہ مگر روایتی جوش وخروش کے ساتھ منانے کاارادہ رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز کا یوم آزادی ،جتنا زیادہ جوش و جذبے سے منایا جائے گا، اتنا ہی ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو نئی نسل میں منتقل اور اجاگر کر پائیں گے ۔