وزیراعظم نواز شریف امریکہ نہیں گئے حالانکہ وہاں صدر اوباما سے ملاقات کا شرف حاصل ہونا تھا ۔ہمدم ِ دیرنیہ نریندرمودی سے صاحب سلامت کا امکان تھا ۔پھرترکی کا دورہ بھی منسوخ کر دیاحالانکہ وہاں اسلامی ممالک کے سربراہوں سے علیک سلیک ہونی تھی۔عین ممکن تھا کہ اس سربراہی کانفرنس میں شریک ہونے سے مسلم دنیا کی سربراہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصے میں آجاتی مگر پاناما لیکس کا بہائواتنا تیز ہے کہ دنیا میں کسی کو بھی سنبھلنے کاموقع نہیں مل رہا۔بیچارے شریف خاندان کا کیا قصورہے ۔ستم یہ ہے کہ ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ مدد کرنیوالے مدد کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔نہ برادر عرب ملک سے کمک آسکتی ہے نہ ہی امریکہ کوئی امدادی بیڑہ بھیج سکتا ہے ۔امریکہ کا مزاج تو خیر ان دنوں کچھ بدلا بدلا سا ہے ۔جب سے امریکی جنرل جان نکلسن نے امریکی سروس آرمڈکی سینیٹ کمیٹی کے سامنے واضح طور پر کہاہے کہ اگر ایک لاکھ بتیس ہزار فوج طالبان کو ختم نہیں کرسکی تو افغان نیشنل آرمی سے کسی کامیابی کی کیسے توقع کی جاسکتی ہےوہاں توسوچنے کے انداز میں ذرا سی تبدیلی آئی ہے۔ چودہ سال کے بعد انہیںاحساس ہوا ہے کہ پاکستان آرمی کے بغیر افغانستان کو حقیقی معنوں میں فتح نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کے بغیروہاں کے معاملات مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتے ۔سو امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے کھل کرجنرل راحیل شریف سے کہہ دیا ہے کہ آپ کے بغیر پُر امن افغانستان کا وجود ممکن نہیں۔اسی تناظر میںاس نے جنرل راحیل شریف سے افغانستان میں طالبان کے ساتھ معاملات کے دائمی حل کی در خواست کی ہے۔اس ملاقات کے بعد عسکری حلقوں میں کہا جا رہا ہےکہ یہ ملاقات پاکستان آرمی اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کے آغازکی تمہید بننے والی ہے ۔
ماضی میں افواج ِ پاکستان اور امریکہ کے مراسم میں جب بھی زیادہ بہتری آئی تو جمہوریت کمزور ہوئی۔ضروری نہیں کہ اب بھی ایسا ہی ہو مگر موجودہ صورت حال کو دیکھ کردل دھڑکنے لگتا ہے۔اوپر سے ایسی دل دہلانے والی خبریں سنائی دینے لگتی ہیں کہ موجودہ حکومت کے خیر خواہ، اثرانداز ہونے والی دنیا کے سامنے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ۔جن کا فوری سبب پاناما پیپرز ہیں ۔
پاناما پیپرز کے موضوع پر چوہدری اعتزار احسن نے پارلیمنٹ میں تندو تیز حقائق سے بھری ہوئی خوفناک تقریر کی۔اس تقریر پر نون لیگ کے ارکان نے خاصا احتجاج کیا مگر لوگوں کا خیال ہے کہ جتنا احتجاج ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں کیا گیا۔انہیں جان بوجھ کر لمبی تقریر کرنے کی اجازت دی گئی ۔پھراعتزاز احسن تو اعتزاز احسن ہیں۔ ایک انہیں بات کرنا آتی ہے ۔ اوپر سے وہ تیارہو کر آئے تھے۔یقینا یہ تقریر ان کی چند یادگار تقاریر میں سے ایک تھی۔ انہی لمحات میںوزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے پاناما پیپرز پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعتزاز احسن پر پھرپرانے الزامات لگائے۔دونوں چوہدریوں کے درمیان یہ سلسلہ بڑے عرصے سے جاری و ساری ہے ۔چوہدری نثار علی خان نے چوہدری اعتزاز احسن کی کوئی فائل اپنی میز کی دراز میں رکھی ہوئی ہے ۔جب کبھی غصہ بڑھتا ہے اسے نکال کر پڑھتے ہیں اور پھر اُسی دراز میں رکھ دیتے ہیں ۔پچھلے دنوںبھی شاید اسی کیفیت سے گزرے ہیں ۔ بقول شاعر ۔رات کھولے تھے کچھ پرانے خط ۔۔پھر محبت دراز میں رکھ دی ۔۔اس پریس کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان نے کچھ ایسی باتیںبھی کیںجوخود ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں کیلئے بھی حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشان کن بھی تھیں ۔خاص طور پر انہوں نے عمران خان کی اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہ وقت(آف شور کمپنیوں کا باہر آجانے کا وقت) واقعی ملک کی بہتری کیلئے ایک فیصلہ کن وقت ہے۔یہ بھی فرمایا کہ آئیے ہم سب سیاستدان اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کردیں۔سب سے پہلے میں اپنی حکومت اور خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں کہ اس بات کی پوری تحقیق کی جائے کہ ہمارے جواثاثے ہیں وہ کہاں سے شروع ہوئے تھے اور آج کہاں پہنچے ہوئے ہیں ۔ہم جن گھروں میں رہتے ہیں وہ کس کے نام ہیںاورکس طرح خریدے گئے ہیں ۔۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ لندن والے فلیٹس وزیر اعظم نواز شریف کے ہیںاور بڑے عرصےسے ہیں۔اس پر اعتزازاحسن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے چوہدری نثاروزیر اعظم نواز شریف کو پھنسا رہے ہیں ۔‘‘بہر حال چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے بعداب حکومت اس سے انکار تو نہیں کر سکتی کہ لندن کے فلیٹس کا اصل مالک کون ہے۔ اس اعلانیہ اقرار کے بعدپہلا مسئلہ الیکشن کمیشن کے لئے پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کیا کرے ۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے اثاثوں میں یہ فلیٹس ظاہر نہیں کئے تھے۔اس بنیاد پر قانونی طور پرالیکشن کمیشن کوانہیں ڈی سیٹ کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ دوسرا مسئلہ نیب اور ایف آئی اے کیلئے پیدا ہوگیا ہے کہ ان پر لازم ہو چکاہے کہ وہ تفتیش کریں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے یہ فلیٹس خریدنے کیلئے اپنا سرمایہ کب برطانیہ منتقل کیا ،کیسے کیااور وہ سرمایہ آیا کہاں سے تھا۔نیب بیچاری توپہلے ہی پندرہ سال پرانے کیس اٹھائے پھرتی ہے اور ان پر کچھ نہیں کر پارہی ۔اس مسئلے میں کیا کرے گی اور ایف آئی اے کی مظلومیت کا کیا کہوں وہ تو اصغر خان کیس کی فائل کے قریب جانے سے بھی ڈرتی ہے۔وہ کسی ایسی منی لانڈرنگ کے متعلق کیسے سوچ سکتی ہے ۔
اگرچہ اعتزاز احسن نے تقریر بڑی زوردار کی۔انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کرحکومت کے خلاف تحریک چلانے پربھی غور کیا مگریہ خبر سن کروہ یقینا خاصے پریشان ہوئے ہونگے کہ آج وزیر اعظم نواز شریف لندن روانہ ہورہے ہیں۔ لندن میںان کی سابق صدرآصف زرداری سے ملاقات کے بعدپیپلز پارٹی کی پالیسی کیا ہوگی ۔یہ بات ابھی کوئی نہیں جانتا ۔سننے میں آیا ہے سابق صدر چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت پانچ سال پورے کرے ۔اور وہ اس کی بہت سی وجوہات بھی بیان کرتے ہیں ۔یہ بھی اطلاع ہے کہ اسی وجہ سے فریال تالپور اسلام آباد آئی ہیںاورجس شخصیت سے ملاقات کرنے آئی تھیں اُس سے ملاقات بھی کر لی ہے۔شاید اسی ملاقات کے بعدوزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں اپنا طبی معائنہ کرانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔یہ سوال بھی اپنی جگہ سلگ رہا ہے کہ یہ طبی معائنہ امریکہ میں بھی کرایا جاسکتاتھا۔ ترکی کا دورہ مکمل کرکے بھی برطانیہ جایا جا سکتا تھا۔بہر حال میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت مند رکھے اور کوئی بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔