• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نے گزشتہ روز لاہور میں راوی کے کنارے نئے شہر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے اپنے خطاب ، فیصل آباد کے ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات اور پنجاب کے سول افسروں سے گفتگو میں اپنی حکومت کے ابتدائی دوبرسوں میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات کا ذکر کیا اور مستقبل کے حوالے سے اپنے عزائم پر روشنی ڈالی۔ان کے اس اظہار خیال سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی مسائل کے حل ، کرپشن کے خاتمے اور اچھے طرز حکمرانی کے فروغ کے لیے وہ آج بھی پوری طرح یکسو ہیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے قومی ترقی کے لیے جو اہداف انہوں نے مقرر کیے تھے اورجو وعدے عوام سے کیے تھے ، ان کے حصول کو یقینی بنانے کی خاطر ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنے اس جذبے کا دوٹوک اظہار انہوں نے ان پرُزور الفاظ میں کیا کہ ’’ میں نے کشتیاں جلادی ہیں اور اب مجھے پیچھے نہیں ہٹنا آگے جانا ہے‘‘۔ وزیر اعظم کا یہ عزم یقیناً نہایت خوش آئند ہے تاہم جہاں تک اپنے اقتدار کی تقریباً نصف مدت میں اِن حوالوں سے اُن کی حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اِس کا اندازہ زیر نظر رپورٹ کے اِن الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی وزیراعظم سے ملاقات میں پھٹ پڑے ، اُن کا شکوہ تھا کہ پنجاب میں ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیزکھل کر کرپشن کررہے ہیں۔‘‘ اِس شکایت پر وزیراعظم نے وزیراعلی پنجاب کوفوری کارروائی کا حکم دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ ہے پولیس اور پٹوار کلچر میں کرپشن ہو رہی ہے‘بیورو کریسی حکومت کا ساتھ نہیں دیتی‘ہر جگہ مسائل ہی مسائل ہیں۔ پنجاب کے سول افسروں سے خطاب میں بھی وزیر اعظم نے صوبے میں بے پناہ کرپشن اور اب تک اس پر قابو نہ پائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ پولیس ، پٹواری اور بیوروکریسی کی کرپشن کے مقابلے میں تمام ریاستی اداروں کی مکمل تائید و حمایت کی حامل حکومت کے سربراہ کی یہ بے بسی عوام کے لیے ناقابل فہم ہے۔ پنجاب میں یہ صورت حال خاص طور پر وضاحت طلب ہے کیونکہ صوبائی وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے ۔ سرکاری افسروں سے اپنے ویڈیو خطاب میں وزیر اعظم نے تھانہ کلچر ختم کرنے اور غریبوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی اور یقین دلایا کہ وہ میرٹ پر کام کرنے والے ہر افسر کا ساتھ دیں گے اور کسی پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہوگا جبکہ کرپشن اور نااہلی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی ۔ یہ باتیں بلاشبہ بالکل درست ہیں اور وزیر اعظم اپنی حکومت کے پہلے دن سے انہیں دہراتے چلے آرہے ہیں لیکن نتائج کے لیے قول کا عمل میں ڈھلنا لازم ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ اب اس میں مزید تاخیر نہ ہونے دی جائے۔ ’’راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے اسے لاہور کو بچانے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے صراحت کی کہ اس کی وجہ سے لاہور کو کراچی جیسے خطرناک مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پچاس ہزار ارب روپے لاگت کا یہ منصوبہ یقینا ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے ہر مرحلے پر شفافیت اور میرٹ کا اہتمام ناگزیر ہے بصورت دیگر کرپشن اور بدانتظامی کے ہاتھوں بی آر ٹی سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال رونما ہوسکتی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطابات میں دوسال میں پیش آنے والی مشکلات کا عمومی سبب یہ بتایا کہ’’ این آر او کا مجمع ہر جگہ اکٹھا ہو جاتاتھااور انہوںنے مصیبت ڈالی ہوئی تھی کہ ہمیں این آر اودو تو ایف اے ٹی ایف کا بل پاس کریں گے اور کشمیر کے ایشو پر سپورٹ کریںگے‘‘ ۔اس الزام کا جواب اپوزیشن رہنماؤں کے ذمے ہے تاہم وزیر اعظم اگربقول خود اپنی کشتیاں جلاکر اس مرحلے کو کامیابی سے عبور کرچکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ’’اب یہ ملک آگے بڑھے گا ‘‘ تو آنے والا وقت یقینا اس کی گواہی دے گا۔

تازہ ترین