کراچی (نیوز ڈیسک) 2013ء کے الیکشن میں ایران میں جب صدر حسن روحانی نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنا بہتر اور آسان ثابت ہوگا لیکن ان کی صدارت کے سات سال بعد دیکھیں تو امریکا کے ساتھ تعلقات تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور ایران چین کے ساتھ 25؍ سال کا معاہدہ کر چکا ہے۔ ایران میں حسن روحانی کو معتدل مزاج سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے 2013ء میں الیکشن جیتا اور وعدہ کیا کہ وہ مغرب کے ساتھ کشیدگی میں کمی لائیں گے، یہ بات ان کے پیش رو اور سابق صدر محمود احمدی نژاد کے موقف سے بالکل الٹ تھی جنہوں نے ایران کو چین کے قریب لانے کی حمایت کی تھی۔
اس نئی تبدیلی نے عوام کے سامنے اس اختلاف کو کھول کر رکھ دیا ہے جو ملک میں مغربی سوچ کے حامل اصلاح پسندوں اور چین نواز قدامت پرست رہنمائوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی کشیدگی ہے جو 1979ء کے انقلاب کے بعد سے جاری ہے۔ ایک گروپ کی دوسرے گروپ پر برتری کا ایرانی سیاست کی سمت کے تعین میں اہم کردار ہے۔
اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کی حکومت نے 1997ء سے 2005ء تک مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جبکہ ان کے بعد آنے والے صدر محمود احمدی نژاد نے 2005ء سے 2013ء تک روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی خارجہ پالیسی پر زور دیا۔
احمد نژاد کے عہدے کی مدت ختم ہوتے وقت بین الاقوامی پابندیاں ایرانی معیشت کو گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کر چکی تھی، عوام چاہتے تھے کہ دوبارہ مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کیے جائیں۔