• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے لئے کچھ حلقوں کی طرف سے جو خطرات پیدا کئے گئے ہیں اس سلسلے میں اب تک اٹھارہویں آئینی ترمیم کی کچھ اہم شقوں کے حوالے دیکرمیں تین چار کالم لکھ چکا ہوں مگر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ’’اعلیٰ حلقوں‘‘ کی طرف سے خود آئین کے لئے خطرات پیدا کئے جا رہے ہیں۔

خاص طور پر اس بات سے قطع نظر کہ آئین کیا کہتا ہے‘ پاکستان کے اہم صوبے سندھ کی وحدت سے کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہرحال آئینی ترمیم کی جو قابلِ ذکر باقی شقیں ہیں وہ میں اس کالم میں پیش کررہا ہوں۔

سب سے پہلے اس بات کا ذکر کرنا چاہئے کہ میں نے ایک اہم آئینی ادارے ’’قومی اقتصادی کونسل‘‘ کے بارے میں آئین کی متعلقہ شقوں کا ذکر کرتے وقت ایک اہم شق 156کی ایک انتہائی اہم ذیلی شق (2)کا ذکر نہیں کیا جو مندرجہ ذیل ہے:

"Article 156(2): The National Economic Council shall review the overall condition of the country and shall, for advising the Federal Government and the Provinicial Governments, forumulate plans in respect of financial, commercial, social and economic policies; and in formulating such plans it shall, amongst other factors, ensure balanced development and regional equity and shall also be guided by the Principles of Policty set out in Chapter 2 of Part-II."

یہ ذیلی شق مجھے اس وجہ سے من و عن پیش کرنا پڑرہی ہے کہ یہ صوبوں اور ملک کی ترقی کے لئے بہت اہم ہے حالانکہ اس ذیلی شق میں ایک انتہائی اہم ایشو یعنی ’’متوازن ترقی اور علاقائی برابری‘‘ پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے مگر اس وقت مجھے سب سے اہم اس ذیلی شق کا یہ آخری نکتہ محسوس ہورہا ہے جس کے ذریعے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ قومی اقتصادی کونسل فقط اس وقت یہ مقاصد حاصل کرسکے گی جب یہ سارے فیصلے آئین کے چیپٹر 2کے پارٹ IIمیں دی گئی پرنسپلز آف پالیسی (پالیسی کے اصولوں) کی روشنی میں کئے جائیں گے۔

بہرحال یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کی آئینی ذمہ داری ہے کہ سارے اقتصادی ایشوز پر اس طرح فیصلے کئے جائیں کہ سارے علاقوں کی متوازن ترقی اور علاقائی برابری کسی طور پر بھی متاثر نہ ہو۔

ملک کے سارے اقتصادی ماہرین کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی اس سلسلے میں رہنمائی کریں کہ آئین کی اس ذیلی شق پر کس حد تک عمل ہورہا ہے یا ہوتا رہا ہے‘ اب میں 18ویں آئینی ترمیم کی شق 60کا ذکر کروں گا جس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 161میں ترمیم کی گئی ہے‘ اس شق کی ذیلی شق (a)اور ذیلی شق (b)کافی اہم ہیں‘ ذیلی شق (a)میں کہا گیا ہے کہ:

"(a): The net proceeds of the Federal duty of excise on natural gas levied at well-head and collected by the Federal Government and of the royalty collected by the Federal Government, shall not form part of the Federal Consolidated Fund and shall be paid to the Province in which the well-head of natural gas is situated;"

سندھ کے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم لاتے وقت اس شق میں بھی ترمیم کی جاتی کیونکہ اس سے بڑی ناانصافی کیا ہوسکتی ہے کہ جس صوبے کے گیس کے کنویں میں سے گیس نکالی جاتی ہے تو وہ اس صوبے کی ملکیت ہوگی مگر اس شق کے تحت یہ گیس اس صوبے کے گیس کے ذخیرے میں جمع کرنے کی بجائے وفاقی حکومت کے حوالے کی جاتی ہے اور اس سے وفاقی حکومت کو جو رقم وصول ہوتی ہے۔

اس کے بارے میں اس شق میں یہ ضرور واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اس گیس پر جمع ہونے والی ایکسائز ڈیوٹی بمع رائلٹی یہ سب رقوم وفاقی حکومت ضرور لے گی مگر یہ رقم وفاقی کنسالیڈیٹ فنڈ میں جمع نہیں ہوگی یہ رقوم متعلقہ صوبے کے حوالے کی جائے گی اگر اس رقم کا حق دار متعلقہ صوبہ ہے تو پھر یہ رقم کنسالیٹڈ فنڈ میں جمع کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ کیا اس بات کی قومی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں گی کہ متعلقہ رقم کس مقدار میں کنسالیٹڈ فنڈ میں جمع کرائی جاتی ہے اور بعد میں کتنی رقم متعلقہ صوبے کے حوالے کی جاتی ہے‘ کیا یہ رقم متعلقہ صوبے کے حوالے کی بھی جاتی ہے یا نہیں؟۔

اطلاعات تو یہ ہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے یہ ساری رقم ایک پرائیوٹ کمپنی کے حوالے کی جاتی ہے جو بعد میں کتنا حصہ خود رکھتی ہے اور کتنا حصہ متعلقہ صوبے کے حوالے کرتی ہے یہ ایک راز ہے جس پر سے پردہ اٹھنا چاہئے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین