کوئٹہ (نمائندہ جنگ)چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جناب جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا ہے کہ قومیں آزادی کے دن کو قومی تہوار کے طور پر مناتی ہیں اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہم آزادی سے فیض یاب ہوئے ہیں انشاء اللّٰہ ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔
یہ ہم سب کیلئے قومی تہوار ہے جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے رمضان کی ستائیسویں شب اس ملک و قوم کو رحمت کے طور پر تفویض کیا،لہٰذا اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہماری زندگی کا معمول ہونا چاہئے تا کہ رب العزت کے شکر گزار بندوں میں ہمارا شمار ہو، یوم آزادی محاسبے کا دن ہے، 73 سال میں کیا کیا، کیا اداروں کو آئین و قوانین کے مطابق چلا پائے؟
قومی اداروں کی پالیسیاں عوامی مفاد کے تسلسل میں ہیں؟ان خیالات کا انہوں نے 73ویں یوم آزادی کی مناسبت سے پرچم کشائی کی ایک سادہ و پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ہی خوبصورت بات ہو کہ ہم بھی دیگر آزاد قوموں کی طرح اپنے یوم آزادی کو بطور یوم حساب سمجھتے ہوئے منائیں اور ہر یوم آزادی پر تمام اہل حکم و اقتدار خود کو عوام کی عدالت میں برائے احتساب پیش کریں اور اہل اختیار و اقتدار اپنا محاسبہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے اپنی گزشتہ کارکردگی نہ صرف پیش کریں بلکہ مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے بھی مستقل بنیادوں پر مشاورتی نظام مرتب کیا جائے ۔
جس کے لیے پارلیمنٹ ایک بہترین آئینی ادارہ ایک پلیٹ فارم کی صورت میں موجود ہے جس میں عوامی نمائندے عوام کی ضروریات اورخواہشات کے مطابق ایک اجتماعی قومی محاسبہ کا اہتمام کرتے اور کیا ہی اچھا ہو کہ ہم آئین پاکستان کے تحت دی گئی معاشرتی دستاویز کے مطابق اپنے مستقبل کے اہداف کا تعین کریں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے بعد کسی بھی قوم کی زندگی میں آئین ہی سب سے زیادہ مقدس دستاویز تصور کی جاتی ہے اور دنیا میں ترقی یافتہ قوموں نے آج جو متعرالعقل اور معاشی و معاشرتی کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ فقط آئین کی عملداری اور قانون کی بالادستی ہے ہمارے پیارے نبیﷺنے ہمیں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم سے پہلی قوموں کی تباہی کی اصل وجہ یہی تھی کہ جب ان کے بااثر لوگ قانون شکنی کرتے تھے تو ان کے سامنے عام لوگوں کے لیے انصاف کا معیار مختلف ہوتا تھا بس میرے ہم وطنوآج اس ملک میں جب اہل حکم و اقتدار آئین و قانون سے انحراف کی سوچ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو کسی ضابطے کا پابند نہ سمجھیں تو یاد رکھیں نبی آخرالزماں کا کہا پتھر پر لکیر ہے جو زمین کی بساط پلٹنے سے پہلے ضرور پورا ہوگا ۔
آئیے آج کے دن اس محاسبے کا عہد کریں کہ کیا میں خود بحیثیت چیف جسٹس اور ہمارا ادارہ اپنے فرائض کما حقہ ہو ادا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
کیا عوام کے منتخب نمائندے آئین کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
کیا سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد ضروری قانون سازی کا عمل مکمل کیا ہے ؟کیا ہم نے آئین کو وہ مقام دیاجس کا وہ حقدار ہے ؟کیا 1947 سے لے کر آج تک ہم اداروں کو آئین و قوانین کے مطابق چلا پائے؟
کیا عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے قومی اداروں کی پالیسیاں عوامی مفاد کے تسلسل میں ہیں؟ کیا اہل حکم آئین میں درج حدود کی پاسداری کا دعوی کر سکتے ہیں؟
میں یہ تمام سوالات آئندہ یوم آزادی تک آپ پر چھوڑ رہا ہوں آئیے ہم سب عہد کریں کہ آئندہ یوم آزادی کے اجتماع کے موقع پر ہم سب ان تمام سوالات کے جوابات دینے کے اہل ہوں گے۔