• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کورونا ‘‘ کو شاید پتہ نہیں تھا کہ اُس کا پالا معجزوں کی ایسی سرزمین سے پڑاہے جہاں گھر بیٹھے بیٹھے بنا کچھ کئے سب کچھ ہو جاتا ہے۔ ان معجزوں کی بدولت ہم اور کئی پہاڑ عبور کرچکے ہیں، جیسے گھر بیٹھے بیٹھے نقشے میں پورا مقبوضہ کشمیر پاک سرزمین پر موجود ہے وہاں بہت جلد اسی طرح کشمیری عوام بھی سارے دکھ بھول کر ’مدینے کی اس ریاست‘ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، سیاسی عدم استحکام یعنی مختلف مصائب وآلام کا مقابلہ کر رہے ہونگے، اور اتحاد کی بدولت پھر خوشحالی کا جو معجزہ رونما ہوگا دنیا حیران بلکہ پریشان کن نظارہ کرنے پر مجبور و لاچار ہو جائیگی۔ الحمدللہ کورونا کے ’کرب و بلا‘ کے بعد وطن عزیز میں صحت کی صورتحال تیزی سے مگر اچانک تبدیل یعنی صحت یاب ہو گئی ہے، زندگی پوری رفتار سے رواں دواں ہو چکی۔ گویا حکمرانوں کے اس دعوے کہ جولائی، اگست، ستمبر خوفناک ہوں گے، کے قطعی وکلی برعکس صورتحال ہے۔ حکمران جس طرح اعداد و شمار دے رہے تھے تو عام اصول کے مطابق چونکہ متاثرین زیادہ تھے اور اسپتالوں میں جگہ بھی نہ تھی، مزید یہ کہ فرسودہ صحت کے انتظام اور دوا دریافت نہ ہونے کے سبب تو ان متاثرین سے مزید لوگ متاثر ہوتے اور اس طرح مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا، لیکن صاف واضح ہے کہ ایسا معجزہ رونما ہو گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مرنے والوں کی تعداد میں پاکستانی اسٹاک ایکسچنج کے سٹے کی طرح اچانک تیزی کے بعد مندی آگئی ہے بلکہ صحت کا وہ نظام جو مفلوج ہونے کے قریب تھا، اس نے بھی چیخنا بند کر دیا ہے۔

آپ کو یا د ہوگا کہ 22جون کو ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ماہر صحت پروفیسر سعید قریشی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی پیک 13تا 16اگست ہو سکتی ہے کورونا 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتا ہے۔ لیکن ان دنوں تو آپ نے دیکھا کہ پورے پاکستان میں جشن بپا تھا ۔ 23جون کو سینیٹر رحمٰن ملک نے وزیراعظم کے نام لکھے خط میں کہا تھا کہ بغیر کسی تاخیر کے فوج کے زیر انتظام کرفیو نافذ اور جولائی، اگست اور ستمبر کیلئے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک یہ کیسے انقلاب آگیا ہے! پی ٹی آئی کے موقع پرست اسے وزیر اعظم کے وژن کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، یہ نوکر نما لیڈر اتنا بھی غور نہیں کرتے کہ وزیراعظم کا وژن تو یہ تھا کہ اُنہوں نے 8جون کو خبر دار کر دیا تھا کہ جولائی کے آخر یا اگست میں کورونا کی وبا عروج پر جا سکتی ہے۔ پاکستان میں خوف سے بھی بڑھ کر دہشت کی فضا قائم تھی، اور دہشت کو عام کرنے میں سرکاری و پرائیویٹ اسپتالوں کے طرزعمل کا خصوصی حصہ ہے۔ یہ علیحدہ بات تھی کہ اس دہشت نے صرف غریب پر یلغار کی، غریب مریضوں کو تو علاج وتدفین سمیت مختلف مسائل و پابندیوں کا سامنا تھا لیکن بااثر لوگوں کے لواحقین کیلئے تدفین و جنازے کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں تھی۔ کورونا کے آنے اور اب اُس کے اچانک جانے تک کی صورتحال غیر یقینی ہے، اس کی وجہ حکمران طبقات پر ریب و تشکیک سے زیادہ وہ سیاسی نظام ہے جو کورونا کی صورتحال ہی کی طرح ہمیشہ غیر یقینی رہا ہے، آپ دیکھیں دنیا کے اکثر ممالک نے اس وبا کی شدت دیکھی، لیکن وہاں اس کے آنے اور نہ ہی جانے پر کسی غیر یقینی کا اظہار کیا گیا، ان ممالک میں مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے جہاں ایک طرف وہ ہر شعبےمیں خودکفالت کی معراج پر ہیں تو دوسری طرف وہاں کا نظام رعایا کیلئے یقین کا اہتمام بھی کئے ہوئے ہے۔ جس ملک میں پہلے وزیراعظم سے لیکر خاتون وزیراعظم کے قتل اور اس دوران اور بعد میں دیو ہیکل واقعات کےمتعلق یقین سے کچھ نہ کہا جا سکتا ہو وہاں کورونا کے اچانک غائب ہونے سے متعلق کیا یقین سے کہا جا سکے گا۔ ہاں اگر پاکستان میں جمہوریت کو پٹری سے اُتارنے اور پھر رواں جمہوریت کو بے دست وپا کرنے کا عمل مسلسل جاری نہ رہتا بلکہ جمہوری عمل رواں رہتا تو عین ممکن تھا کہ آج جہاں ہم کسی بھی سانحے سے متعلق حقائق سے آشنا ہوتے وہاں کورونا وغیرہ سے متعلق بھی سرکار جو کچھ کہتی شہری اُسے ویسا ہی قبول کر لیتے۔ مستحکم نظام والے ممالک میں شہریوں کا اپنے ریاستی نظام پر ایسا ہی اعتماد قائم ہے۔ الغرض کورونا کی شدت کےایام میں گلی کوچوں کا موضوع یہ تھاکہ فلاں شخص تو محض اپنی دیرینہ بیماری کی وجہ سےاسپتال گیا تھا لیکن اُس کی لاش بھی فلاں ہی کی طرح گھر آئی، اسی طرح ان دنوں یہ بحث عام ہے کہ اچانک یہ کیا معجزہ ہو گیا ہے کہ بھرے اسپتال راتوں رات خالی ہو گئے ہیں۔ سچ جو بھی ہو، اچھی بات مگر یہ ہے کہ بازاروں، کاروباری مراکز اور سڑکوں پر سر ہی سر نظر آرہے ہیں، اور یہی سر زندگی کا ثبوت ہیں۔

تازہ ترین