(نظم فیض صاحب کی ڈکشن میں کہی گئی ہے)
تو نے ہم سے کہا ’’غم نہ کر، غم نہ کر
غم نہ کر ہاں ابھی اک ذرا دیر میں
درد تھم جائے گا، زخم بھر جائے گا
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا
رات ڈھل جائے گی، دن نکل آئے گا
ابر کھل جائے، رت بدل جائے گی
٭
غم نہ کر ہاں فقط چند ہی روز میں
عرصہ دہر کی ساری ویرانیاں
چاندنی کا درد دہکا ہوا
ظلم کی چھب، گراں بار سارے ستم
سرد آہیں ، رخ زرد ، یاس و الم
چند ہی روز میں سب بدل جائے گا
چند ہی روز میں سب بدل جائے گا“
٭
تو کہ سچ کا پیمبر، تو سچ کا ولی
تیرا ہر حرف سچ کی شہادت مگر
دیکھ آ کر کہ کتنے برس بعد بھی
اب بھی دنیا کا عالم وہی کچھ تو ہے
آج بھی میرے شاعر! وہی سب تو ہے
یاس و حرماں وہی، دکھ کے ساگر وہی
سرد آہیں وہی، رخ کی زردی وہی
زیر دستوں کے سارے مصائب وہی
جیل خانوں کی راتوں کی صرصر وہی
جام ساقی میں زہر ہلاہل وہی
ساغر ناب میں اشک ڈھلکے ہوئے
لغزش پا میں پابندی آداب کی
ہاتھ جکڑے ہوئے اب بھی بے آسرا
اشک آنکھوں میں اب بھی بلکتے ہوئے
جسم بکتے ہیں کوچہ و بازار میں
خاک پہنے ہوئے، خوں میں لتھڑے ہوئے
دیکھ آ کر کہ کتنے برس بعد بھی
اب بھی دنیا کا عالم وہی کچھ تو ہے
دیکھ آ کر سب کچھ وہی سب توہے
(سینئر صحافی، شاعر اور ادیب ازہر منیر مارچ 2020ء سے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف احتجاجاً شملہ پہاڑی چوک لاہور میں بھوک ہڑتال پر ہیں)