• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھمکی سے مر گیاجو۔۔تاج جویو ادیب ہیں جو انہوں نے بھی غضب کی ادیبانہ دھمکی دی انعام واپس کرنے کی۔سرکار فوراً حرکت میں آئی اور تاج جویو سرکار کا مہمان ہے۔ اگر یہ مثال بہت پختہ ہے تو پھر صادقین اور احمد فراز کو بھی دوزخ سے خط لکھنا چاہئے کہ یہاں سب شاعر ،ادیب موجود ہیں۔ یہاں تو قرض کی مے بھی نہیں بلکہ مشروب میسر ہے۔بے چارے ڈاکٹر جمیل جالبی تو جب اکیڈمی نے انعام دیا۔ وہ بھی رخصت ہو کر ،مگر جنت میں گئے ہونگے کہ ہر لمحے پان کھانے والوں کو اللہ سزا نہیں دیتا ہے۔ انکو تو زندگی میں لکھنے کی سزا دی گئی تھی۔ اسےانہوں نے خوب نبھایا۔رہ گئے نعیم بخاری تو ساری عمر وکالت میں کبھی ہاں اور کبھی ناں کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے گئے، غلطی سے عمران کو مصوری کا انعام مل گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں اسکی مقبولیت ہے اور اسکی پینٹنگ لاکھوں میں فروخت ہوتی ہے۔عابدہ پروین کے لئے کوئی بھی حرف تو صیف اسلئے مناسب نہیں۔ وہ ایسے اعزازات سے مبرا ہیں۔ رہے ہمارے دوست اسلم انصاری ،تو کیا کہوں کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔اسطرح مہتاب محبوب اور سرمد صہبائی ۔حکومت کو بھولے سے یاد آ گئے۔حکومت پاکستان کا اصول ہے کہ جس کسی شخص کو انعام دیا جائے، اسے پھر اگلے پانچ سال تک دوبارہ نہیں مل سکتا۔ مگر احمد فراز نے ہلال امتیاز ضد کر کے لیا۔ پھر ناراض ہوا تو کہا واپس کر رہا ہوں۔ حکومت کے ریکارڈ میں یہی ہے کہ واپس نہیں کیا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ جن اداروں نے ان ادیبوں کی کتابیں شائع کی ہیں۔ اکیڈمی کو کہا جاتا کہ وہ کتاب کی ہزار کاپیاں خرید کر سیاست دانوں کو تو نہیں،لائبریریوں اور ادیبوں کی خوش ذوقی کے لئے دی جائیں۔ مگر نہ نو من تیل ہو گا ویسے بھی اب زوم کا زمانہ ہے۔اب تو ہزاروں شاعر اپنا کلام زوم پر سنا رہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ عام و خواص میں سےکوئی سنتا بھی ہے۔ ویسے ہمارے عزیز دوست حلیم قریشی اور بہت بڑے مفکر نصیر ترابی،بھی افتخار عارف کے بارے میں یادداشتیں سنانے پر دوزخ نہیں برزخ تک تو چلے جاتے۔ ویسے بھی حلیم قریشی نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ آجکل بہت اداروں اور کالجوں میں مشاعرے ہو رہے ہیں۔ سب مہمان شاعر کا استقبال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔احمد فراز کے بعد اس زمانے کاعظیم شاعر۔ انعامات کا انتخاب کرتے ہوئے کمیٹی کے اراکین کو علم ہوتا ہے کہ تنویر انجم اور عذرا عباس سینئر شاعر ہیں ۔مرنے والوں کو انعامات دیتے ہوئے آخر ان لوگوں کو ہمارے سندھی اور اردو کے لکھاری جونیجو کیوں بھول گئے ۔انور سجاداور فہمیدہ ریاض کے نام کی بھی عزت ہونی چاہئے تھی،یقین ہے کہ یہ سب لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے مل جل کر جوش صاحب سے لیکر فیض صاحب کے لطیفے سنا رہے ہونگے۔ منٹو صاحب فہمیدہ سے ملنے ضرور آئے ہونگے۔

ٹیلی وژن پر ڈاکٹر ریاض ( معروف تاریخ دان) کی کتاب سے ماخوذ فلمائے ہوئے حصے بھی دکھائےجا رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب درمیان میں گفتگو بھی کرتے تھے مگر کسی نے ساری فلم اور تذکرے کے دوران ، مولوی فضل حق کا نام نہ لیا ۔ نہ یہ بتایا کہ سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان پاس کی تھی ۔مسلم لیگ بنی بھی ڈھاکہ میں۔ یہ تذکرہ یا حوالہ کسی صورت نہیں دیا گیا کہ ایک ملک سے دو ملک کیسے بن گئے۔یہ کسی کی غلطی تھی کہ ہندوستان کی مکاری؟۔ اب بھی ہم کشمیر کا نیا نقشہ بنا رہے ہیں۔ مگر دنیا کے کسی بھی ملک نے اس نازیبا حرکت کو غلط نہیں کہا جو ہندوستان نے کی ہے اور جسے اب تو وہاں پارلیمنٹ اور صدر نے بھی پاس کر دیا ہے۔ اس عالم میں ہم الگ اور انڈین الگ کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ انسانیت کہاں ہے۔ مجھے کشمیر کے دو پروفیسرز کا لکھا ہوا مقالہ بعنوان’’ فروغ فرخ زاد اور کشور ناہید ‘‘ملا ہے بھلا ہو انٹرنیٹ کا کہ اسکے ذریعہ یہ مقالہ پہنچا۔دنیا میں کشمیر میں ظلم کے حوالے سے کئی غیر ملکی مصنّفین نے کتابیں لکھی ہیں۔ویسے تو ہندوستان کے تاریخ دان اور جسٹس کاٹجو مستقل بول رہے ہیں۔ ایک پاکستانی نوجوان نے چھپ کر انگریزی میں فلم بنائی ہے۔ ہمیں یہ سب دکھائیں جب ایوارڈ دیا کریں تو کشمیر پہ مبنی فلم یا کتاب پر بھی نظر رکھی جائے۔

تازہ ترین