• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان کے حوالے سے اگست کے مہینے میں تحریک پاکستان کے مختلف شعبوں پر بحث بھی ہوتی ہے اور موشگافیاں اور نکتہ طرازیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔میرے اندازے کے برعکس سوشل میڈیا پر قیام پاکستان اور قائداعظم کی قیادت پر خوب بحث جاری رہی۔اس بحث میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ الگ بات کہ قائداعظم کے ضمن میں معلومات نہایت سطحی تھیں یا پھر کچھ پروفیسروں، دانشوروں اور لکھاریوں کے پروپیگنڈے کے زیر اثر بدگمانیوں کا شکار تھیں۔ مطالعے کی عادت تنزل پذیر ہے زیادہ تر انحصار سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع اور ویڈیوز پر کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر تحقیق کے کچھ دعویدار اپنا مخصوص نقطہ نظر نوجوانوں کے ذہنوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر مخصوص ایجنڈے کے تحت وڈیوز، مضامین اور مخالف مواد کی مدد سے پھیلایا جاتا ہے اور اس کا مقصد جہاں لوگوں کو پاکستان کی اساس اور قیام کے بارے میں بدظن اور گمراہ کرنا ہوتا ہے وہاں قائداعظم کے نظریات، موقف اور مقدمے کو بھی مسخ کرنا ہوتا ہے۔مارچ 1948ءمیں چٹاگانگ کے جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے قوم کومتنبہ(WARN)کیا تھا کہ بھارتی میڈیا بلاوجہ زبان کے مسئلے کو نہیں اچھال رہا۔ اس کے پس پردہ مخصوص مقاصد ہیں۔آج بھی ہمارے کچھ پروفیسروں اور دانشوروں کو بھارتی میڈیا خوب خوب اچھالتا ہے اور ان کی تحقیقی دانش پر تعریف کے بے تحاشا ڈونگرے برساتا ہے ۔آخر کیوں؟ اس لئے کہ ان حضرات کا نقطہ نظر بھارتی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔اس سے پاکستان کی نظریاتی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں اور بھارتی موقف مضبوط ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بیرون ملک سے آئے ایک پروفیسر صاحب نے ایسا شوشہ چھوڑا ہے جسے تاریخ سے مذاق بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان کی علم ودانش کا نچوڑ نشاندہی کرتا ہے کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان برطانوی فوج کا عطیہ تھا۔ گویا اس میں کانگریس، مسلم لیگ، برطانوی لیڈر شپ اور پارلیمنٹ کا بنیادی کردار نہیں تھا بلکہ یہ عسکری سوچ کا نتیجہ تھا۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ برطانیہ خالصتاً جمہوری ملک تھا اور اس کی پارلیمنٹ بنیادی فیصلے کرتی تھی اور خود تقسیم ہند تقریباً ایک دہائی کے غوروخوض کا نتیجہ تھا ۔ بحیثیت طالب علم میں نے برطانوی ریکارڈ بھی دیکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ برطانیہ کی سیاسی قیادت کا فیصلہ تھا جس پر پارلیمنٹ میں بحث ہوتی رہی اوربالآخر پارلیمنٹ نے ہی آزادی ہند کا قانون منظور کیا۔ عسکری سوچ کے سیاسی قیادت پر اثرات کے آثار کہیں نہیں ملتے البتہ اس سے بھارتی میڈیا کو پاکستان مخالف پروپیگنڈے کےلئے بہت زیادہ مواد مل جاتا ہے۔ کتابوں سے دور اور مطالعےسے بے نیاز نوجوان نسلیں ضرور کنفیوژن اور بدگمانی کا شکار ہوتی ہیں۔

کالم کا دامن تنگ اس لئے اختصارمجبوری ہے۔یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان اقلیت کے لئے حاصل نہیں کیا گیا تھا بلکہ پاکستان ’’قوم‘‘ کے لئے حاصل کیا گیاتھا۔1935میں انگلستان سے واپسی کے ایک دو سال بعد کم از کم 1937سے 1947تک قائد اعظم کا موقف تھا کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔ یہی الگ وطن کے مطالبے کی بنیاد تھی۔قرار داد لاہور (پاکستان) مارچ 1940ء کے موقع پر قائد اعظم کا خطاب نظریاتی حوالے سے کلیدی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ قرارداد لاہور ہی حصول پاکستان کی بنیاد بنی اس لئے قائد اعظم کی تقریر کے دو جملے ہمیشہ یاد رکھیں۔

THE MUSSALMANS ARE NOT A MINORITY , THEY ARE A NATION BY ANY DEFINITION.

(تقاریر قائد اعظم از خورشید یوسفی جلد دوم صفحہ 1177)

گویا یہ کہنا کہ پاکستان اقلیتوں کےلئے حاصل کیا گیا، قائد اعظم کے نقطہ نظر کی نفی ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہی تصور پاکستان کا حصہ تھا۔ ہمارے ایک بزرگ کالم نگار اپنے وڈیو لیکچر کے علاوہ کالم میں بھی فرما چکے ہیں کہ ہندوئوں اور کانگریس نے ہم سے کون سا نفرت آمیز سلوک کیا جس کا ذکر ہم کتابوں میں کرتے ہیں ۔ وہ آج کی نہیں بلکہ ماضی اور جدوجہد آزادی کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے قائد اعظم کے اردو قومی زبان کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس وقت تک دستور ساز اسمبلی نے کوئی قانون پاس نہیں کیا تھا تو قائداعظم کو لسانی تنازعہ چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ ان سادہ لوح کو علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی فروری 1948ء میں اردو قومی زبان کا قانون بنا چکی تھی اور اسمبلی میں بنگالی اراکین کی بھاری اکثریت نے اس کی حمایت کی تھی۔شاید ان کو علم نہیں کہ کانگریس نے ہندوستان میں ڈھائی برس (1937-39)آٹھ صوبوں میں حکومت کی جس کے دوران مسلمانوں کا ہر طرح ناطقہ بند کر دیا تھا۔ مسلمان دشمن بلکہ مشرکانہ بندے ماترم ترانہ کا اسکولوں میں لازمی گایا جانا اور مسلمان طالب علموں کو گاندھی کے بت کی پوجا پر مجبور کرنا کانگریسی ذہنیت کو آشکارکرتا تھا۔مسلمانوں پر نوکریوں کے دروازے بند کرنا اور وعدہ کے باوجود اقتدار میں حصہ نہ دینا ظلم نہیں تو اور کیا تھا۔ان سے درخواست ہے کہ پیر پور رپورٹ پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح کانگریسی دور حکومت نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ایک مورخ صاحب کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت لاہور میں فسادات کا آغاز مسلمانوں نے کیا۔ برطانوی دستاویزات میں سے اس وقت کے پنجاب کے گورنر سرجینکنز کا خط بنام وائسرائے مائونٹ بیٹن صیغہ راز نمبر 698بتاریخ 30جولائی 1947ء میرے سامنے پڑا ہے جس میں گورنر نے لکھا ہے لاہور اور نواحی علاقوں میں چھ سنگین بم دھماکے ہوئے۔ ایک بم مزدوروں بھرے ٹرک پہ پھینکا گیا کئی جانیں تلف ہوئیں ،20جولائی کو باغبانپورہ میں مسلمانوں پر سبزی خریدتے ہوئے بم پھینکا گیا۔21کو ایسی ہی واردات سینما گھر میں ہوئی، 22کو لاہور اور مغلپورہ اسٹیشنوں پر ایسی ہی وارداتیں ہوئیں جوبھاری جانی نقصان کا باعث بنیں۔حملہ آور سکھ اور ہندو تھے ان میں پانچ چھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔لاہور میں فضا برانگیختہ ہے گورنر جینکنز کی رپورٹ کے مطابق فسادات کا سلسلہ سکھوں نے شروع کیا تھا جو اسلحہ سے لیس اور بٹوارے کے شدید مخالف تھے۔

تازہ ترین