• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا ابوالکلام آزاد سے یہ تاریخی قول منسوب ہے کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا۔ یہ اڑتی پتنگوں کی مانند ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو کاٹتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں آہستہ آہستہ تیز ہو رہی ہیں۔ سیاسی قائدین جلسے کر رہے ہیں۔ عمران خان نے لاہور میں ریلی نکال کر ”مخالفین“ کو للکارہ ہے مسلم لیگ ن، اور پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ پہلے والی رونقیں نہیں ہیں تاہم ٹکٹوں کی تقسیم پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جنہیں ٹکٹ نہیں ملا تو ناراض ہو کر دوسری جانب کوچ کر گئے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ف) کے سربراہ پیر پگارو کی قیادت میں 10 جماعتی اتحاد نے ”انتخابی ماحول“ ہی تبدیل کر دیا ہے۔ بہت سی نشستوں پر پیپلز پارٹی سے ون ٹو ون مقابلہ ہو گا۔ پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کو ”بڑی اہمیت“ نہیں دے رہی لیکن ان کے امیدوار اگرچہ ان میں بڑی تعداد نئے چہروں کی ہے ”بریک تھرو “ دینے کی کوششیں کریں گے۔ لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد میاں محمد نواز شریف کے مدمقابل ہیں۔ وہ پہلی بار انتخابی اکھاڑے میں اتری ہیں لیکن سماجی کارکن کی حیثیت سے محتاج تعارف نہیں۔ تحریک پاکستان کے نامور کارکن سابق وزیر تعلیم ملک غلام نبی کی بہو ہیں۔ عاشق ڈیال مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں رکن رہے ان کے صاحبزادہ کو ٹکٹ نہیں ملا تو وہ ناراض ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ اعجاز ڈیال تو ایسے عاشق تھے ضلع کونسل کے چیئرمین بنائے گئے تو سرکاری دفتر میں میاں محمد شریف مرحوم کی قد آور تصویر آویزاں کی کہ میرے سب کچھ اور محسن یہی تو ہیں۔ ایسا ہی کچھ زین شوکت کے ساتھ ہوا۔ مرحوم چوہدری شوکت میاں برادران کے سچے اور سُوچے جانثاروں میں سے تھے میں گواہ ہوں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پیشکش کی کہ ق لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ رہائی بھی ملے گی اور ٹکٹ بھی جو چاہے لے لو۔ لیکن چوہدری شوکت نے انکار کر دیا وہ جلا وطن بھی رہا اور ایک مدت قید کاٹی لیکن وطن واپسی کے بعد میاں نواز شریف اسے بھی بھول گئے۔
معروف کالم نگار ایاز میر تو اتنے برہم ہیں کہ میاں برادران کے خلاف چیختا چنگھاڑتا ہوا ایک کالم لکھ مارا وہ تو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے خاصے قریب بتائے جاتے تھے۔ ان سے فکری اختلاف اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ ایک بلند پایہ صاحب علم لکھاری ہیں تاہم اہل علم کو اتنا سچ زیب نہیں دیتا۔
مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ نے بڑی چھان پھٹک کے بعد ٹکٹ جاری کئے ہیں اور دعویٰ یہی ہے کہ ”خوب سے خوب تر“ امیدواروں کو تلاش کیا گیا ہے لیکن بہت سے ”اچھے لوگ“ نظر انداز بھی ہوئے ہیں جن پر سیاسی حلقوں نے تعجب کا اظہار بھی کیا ہے۔ سہیل ضیاء بٹ ایسے ہیں جنہوں نے ”بروے وقتوں“ میں پارٹی قیادت کا بھرپور ساتھ دیا۔ بے نظیر دور میں جب میاں شہباز شریف علاج کے لئے لندن گئے تو کہتے ہیں کہ ان کے متبادل کے طور پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ 17 سالہ حمزہ شہباز بھی ان کے ساتھ جیل میں گئے جب میاں برادران اور ان کے خاندان کو جبراً جدہ بھیجا گیا تو سہیل ضیاء بٹ بھی جلا وطن ہو گئے۔ ان کے ساتھ اپنے بال بچوں سے دور سرور محل میں مقیم رہے۔
ایسے عاشق کہ پارٹی قیادت کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ 2008ء میں ان کے ہونہار صاحبزادے عمر سہیل بٹ کو ٹکٹ دی گئی اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ سہیل ضیاء بٹ رشتہ میں بہنوئی لگتے ہیں لیکن اسے ٹکٹ نہ دینے کا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دور اور نزدیک کے کئی رشتہ داروں کو ٹکٹ سے نوازا گیا۔ حلقہ کے ووٹروں میں بھی پسندیدہ امیدوار تھا۔ اسی طرح اوورسیز پاکستانی مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل قیصر محمود ان لوگوں میں شامل ہے جو کڑے وقت میں پارٹی کے ساتھ وفادار رہا اوورسیز پاکستانیوں کے لئے خاصا کام بھی کیا۔ شنید ہے کہ اس نے پارٹی فنڈ بھی اکٹھا کیا۔
وہ بڑے ہی پُر امید تھے۔ چنیوٹ میں فلاحی رفاحی کام بھی کرائے۔ اس حلقہ سے قیصر محمود کو نظر انداز کیا گیا ایک اور قیصر شیخ کو ٹکٹ دیا گیا جو صنعتکار اور شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ محمدی شریف کے سربراہ مولانا رحمت اللہ جو ماضی میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس علاقہ کی قابل احترام شخصیت ہیں ان کے قابل احترام والد مولانا محمد ذاکر وہ شخصیت تھے جنہوں نے بھٹو دور میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ وطن واپسی کے بعد پارٹی قیادت نے مولانا رحمت اللہ کو دوسرے پرانے ساتھیوں کی طرح فراموش کر دیا لیکن شہباز میاں نے نہ صرف خود انہیں بلا کر ان سے ملاقات کی بلکہ اپنے ہسپتال میں علاج بھی کرایا اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جو کہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔
لاہور میں ڈاکٹر اسد اشرف، ڈاکٹر سعید الٰہی، نصیر بھٹہ، اللہ رکھا، میاں مرغوب اور چوہدری اقبال ، چوہدری عبدالغفور ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی جگہ کارکنوں کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی لاہور کے سیکرٹری جنرل سمیع اللہ اور ان کی اہلیہ مسلم لیگ (ن) میں اس امید پر شامل ہوئیں کہ ٹکٹ مل جائے گا مگر جناب سمیع کو ٹکٹ نہیں ملا۔ 2008ء میں مسلم لیگ (ق) کے 34,35 ارکان نے چوہدری برادران سے الگ ہو کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کیا اور یہ حقیقت ہے کہ ان ارکان کی حمایت سے ہی مسلم لیگ (ن) نے صوبہ میں حکومت بنائی اس وقت “لوٹا سازی“ کے الزام عائد کئے گئے۔ ان ارکان کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان ارکان کو ترقیاتی فنڈز بھی دیئے گئے اب یہ ڈیفیکشن گروپ تتر بتر ہو گیا۔ اس کے لیڈر ڈاکٹر طاہر کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔
میاں عطاء احمد مانیکا جو اس گروپ سے الگ ہو کر مسلم لیگ ہم خیال کے صوبائی صدر بن گئے تھے خوش نصیب ہیں انہیں ٹکٹ مل گیا ہے لیکن ان کے رشتہ میں ایک بھتیجے ان کے مد مقابل آ گئے ہیں۔ شنید ہے کہ اس گروپ کے 6 ارکان اکاموڈیٹ کئے جا سکے ہیں اور کچھ ایسا ہی شاندار مسلم لیگ ہم خیال کے ساتھ ہوا گھبرا کرحامد ناصر چٹھہ نے مسلم لیگ (جونیجو) بحال کر دی ہے۔ اقبال ڈار اسے منظم کر رہے ہیں۔ ہمایوں اختر ماضی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مسلم لیگ (ن) سے مذاکرات کرتے رہے وہ فارغ ہیں اور مسلم لیگ ہم خیال کے صدر ارباب رحیم نے پیپلز مسلم لیگ کے نام سے نئی پارٹی بنا لی ہے مخدوم احمد محمود نے چند ماہ قبل ہی پشین گوئی کر دی تھی کہ ہمایوں اختر کو رائے ونڈ سے مراد نہیں ملے گی۔ مشرف دور کے ضلع ناظم اور سابق وفاقی وزیر انور عزیز کے ہونہار صاحبزادے دانیال عزیز جو چند ماہ قبل ہی پارٹی میں آئے تھے امیدوار بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ یہ بڑے مقدر کی بات ہے۔ عام انتخابات کے وقت سیاسی جماعتوں میں ”آمدورفت“ کوئی تعجب کی بات نہیں اور پارٹی قیادت ایسے ہی کارکنوں، لیڈروں کا انتخاب کرتی ہے جو حلقہ میں مقبول اور کامیاب ہونے والے ہوں اور ایسا کرنا پارٹی پارلیمانی بورڈ کا حق ہے۔ تاہم اتنی سی گزارش ہے کہ وہ جو ”برے وقتوں“ کے ساتھی تھے انہیں گریس مارک ضرور دینے چاہیں۔ چند ایک ”اچھے کارکن“ جنہیں نظر انداز کرنے کا شکوہ ہے انہیں ”ویٹنگ لسٹ“ پر رکھ لیا جائے تو بڑے پن کا مظاہرہ ہو گا۔ ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے انتہائی خوبصورت آفس میں امیدواروں کی منڈی میں تو یہی تاثر عام تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ میاں نواز شریف کی قیادت ”انتخابی ہما“ ہے جس کے سر پر بیٹھ گیا وہ کامیاب ہو گیا جبکہ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 11 مئی کو بڑے زور کا رن پڑے گا۔ جنہیں عوام ووٹ دیں گے وہی حکمران ہو گا… اللہ کرے کہ یہ مرحلہ خیر و خوبی سے گزر جائے کیونکہ ان اونچے ایوانوں سے ”سب اچھا ہے“ کی صدا نہیں آ رہی۔
تازہ ترین