• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے سے امت مسلمہ میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔پاکستان، ترکی، ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔سعودی عرب کا بھی کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا جب تک یہودی ریا ست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ نہ کرے۔ حکومت پاکستان نے بھی اس حوالے سے دانشمندانہ موقف اختیار کیا ہے۔ اگر پاکستان، عرب امارات اور اسرائیل معاہدے کو تسلیم کرتا ہے تو مسئلہ کشمیر پر ہمارا مقدمہ کمزور نہیں بلکہ ختم ہو جائے گا اور بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھا ئے گا۔حقیقت یہ ہے کہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ امریکی دباؤ پر کیا گیا ہے۔ جس کے خلاف پوری مسلم دنیا میں مزاحمت ہورہی ہے۔ خود فلسطین اس کو مسترد کرچکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری بے بسی چھوڑ کر فلسطینیوں کو ان کے جائز و قانونی حقوق دے اور اسرائیل کا راستہ روکے، خطے میں فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف کسی بھی قسم کی پیش رفت قابل قبول نہیں ہے۔ اس معاہدے نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے ایک نئی چال چلی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف عجلت میں کئے گئے فیصلے پر امارات، اسرائیل معاہدہ درحقیقت مسلمانوں کے قتل عام اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے سامنے شکست تسلیم کرنے کے متراد ف ہے۔اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔ قبلہ اول کی حفاظت بحیثیت مسلمان ہم سب پر فرض ہے۔ امت کے اتحاد کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ جنھیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناکام بنانا ہوگا۔ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کےلئے امت مسلمہ کا مضبوط اتحاد ناگزیر ہوچکا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اس سے خیر کی توقع رکھنا اور امن کی بھیک مانگنا شرمناک عمل ہے۔ پاکستان میں مہنگائی، تعلیم اور صحت کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے سابقہ ادوار میں تعلیمی شعبہ کو نظرانداز کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دورمیں بھی اس حساس شعبے کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جا رہاہے۔طلبا اور طالبات کو یکساں تعلیم حاصل کرنے کے موقع ملنا چاہئے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے جھنگ کیمپس کو یونیورسٹی آف جھنگ میں ضم کرنا ناقابل فہم ہے۔اس وقت کالج میں ایک ہزار تین سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔جھنگ ایک پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ علاقہ ہے۔خواتین کی تعلیم کا تناسب بھی بہت کم ہے۔لوگ مخلوط ذریعہ تعلیم کو معیوب سمجھتے ہیں۔خدشہ ہے کہ اس اقدام سے خواتین میں شرح خواندگی کا تناسب مزید کم ہو جائے گا۔ حکومت پنجاب کا یہ اقدام عوام کی آزادی سلب کرنے اور مذہبی اور اخلاقی روایات کوپامال کرنے کے مترادف ہے۔ضروری ہےکہ خواتین یونیورسٹی جھنگ کیمپس کی موجودہ حیثیت بر قرار رکھی جائے اور طالبات کو جدا گانہ ماحول میں تعلیم کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔حکومت کو پنجاب سمیت پورے ملک میں خواتین کے الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہئیں۔ پہلے ہی ملک میں شرح خواندگی افسوس ناک حد تک کم ہے۔اب اگر ایسے اقدامات کیے گئے تو طالبات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔مجھے امید ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس اہم مسئلے کا فوری نوٹس لے کراسے حل کریں گے تاکہ ضلع جھنگ کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب دور ہو سکے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ایک سال کے دوران سونا 42ہزار روپے فی تولہ مہنگا ہوگیا ہے۔ اگر اسی رفتار سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تو اس کی قیمت دسمبر تک 2لاکھ روپے سے تجاوز کرجائے گی۔ اگر یہ ہی صورتحال رہی تو مہنگائی کا سونامی عوام کو بہا کر لے جائیگا۔ حکومت عوام کو تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں کررہی۔ نیپرا کی جانب سے پچھلی تاریخوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخ 2روپے 6پیسے فی یونٹ مہنگا کرنا تشویشناک امرہے۔

نومبر2019سے جون2020تک بڑھائے گئے نرخوں کی وصولی اگست اور ستمبر کے بلوں میں کی جائے گی۔ اس اقدام سے عوام پر 20ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ایک طرف مہنگائی ہے اور دوسری طرف بدانتظامی ہے۔کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی موسلا دھار بارش سے سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ راوی بیدیاں نہر ٹوٹنے سے کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔چند روز قبل ہونے والی بارشوں نے حکومت پنجاب کے تمام دعوؤں پر پانی پھیر دیا ہے۔

تازہ ترین