جنرل مشرف کے لیے چاہے اُن کی رہائش گاہ کوجیل قرار دے دیا جائے یا انہیں پولیس ہیڈ کوارٹر کے آرام دہ ریسٹ ہاؤس میں گرفتار کر کے بند کیا جائے وہ ہم سب کے لیے نشان عبرت کی ایک زندہ مثال ہیں۔ اُن پر کوئی ترس کھانے والا نہیں۔ مشرف کے حق میں کوئی احتجاج نہیں ، کوئی جلسہ جلوس نہیں۔ اپنے وقت کا انتہائی طاقتور ڈکٹیٹرکے لیے احمد رضا قصوری اور ڈاکٹر امجد کے علاوہ کوئی بات کرنے والا نہیں، اگر کوئی حمایتی نظر آ جائے تو اُس بچارے کی بھی دھلائی کر دی جاتی ہے۔ اپنے دور میں مکے لہرا لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کرنے والا سہمے ہوئے انداز میں عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہے ۔ خوف اور بد حواسی اُس کے چہرے سے عیاں ہے۔ دیکھنے والوں کو بھی یہ خوف رہتا ہے کہ کہاں سے کوئی جوتا اُس پر آن پڑے۔ اُس نے اپنے دور میں لوگوں کو دکھ اتنے دیے کہ کسی کو بھی اُس کے دشمنوں کا کوئی اندازہ نہیں۔ ایک وزیر اعظم (میاں نواز شریف) اوردوسرے کئی افراد کو کس بے رحمی سے ہتھکڑیاں لگوا کر اٹک قلعہ میں ڈالنے والا، اپنی حکمرانی کو بچانے کے لیے درجنوں ججوں کو اُن کے گھروں میں قید کرنے والا، اپنی ذات کے لیے دو مرتبہ آئین پاکستان کی دھجیاں اُڑانے والا، اقتدار کے نشے میں مست ہو کر لال مسجد میں پاک فوج کے ذریعے دھاوا بول کر وہاں سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا، امریکا کی مسلم کُش نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور پاکستان کی فوج کو جھونکنے کا سنگین گناہ کرنے والا، نواب اکبر بگٹی کو قتل کر کے بلوچستان میں آگ لگانے والا، خود ایک بیٹی کا باپ ہوتے ہوئے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو ڈالرز کی خاطر امریکا کے حوالے کرنے والا، 12مئی 2007 کو کراچی میں درجنوں معصوموں کو قتل کروا کر اُسی شام اسلام آباد میں مکے لہرا کر یہ کہنے والا کہ دنیا نے میری طاقت دیکھ لی، روشن خیالی کے نام پر پاکستان میں فحاشی وعریانیت کو فروغ دینے والا، اسلام دشمنوں کی خواہش پر پاک فوج کے نعرہ ”ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ“ کو بدلنے والا، اللہ کے رستے میں افغانستان میں جارح امریکی و نیٹو افواج کے خلاف افغان مسلمانوں کی مدد کرنے والے اسلام پسند جہادیوں کو چن چن کر مارنے اور انہیں امریکا کے حوالے کرنے والا ، اپنے اقتدار کی خاطر اربوں کی کرپشن میں ملوث سیاسی رہمناؤں سے NROڈیل کرکے پاکستانی عوام پر تاریخ کی بدترین اور کرپٹ ترین حکمران مسلط کرنے والے، امریکا کو پاکستان کی خودمختاری کا سودا کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی اجازت دینے والے جنرل مشرف کے جرائم کی لسٹ اتنی طویل ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باجود نجانے کس خوش فہمی کی بنیاد پر یہ شخص پاکستان اس امید سے لوٹا کہ جیسے یہ قوم اُس کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہے، مگر یہاں پہنچ کر پاکستان میںآ ٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے مشرف کو اب اپنی حقیقت اور مقبولیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اپنی آمد پر لاکھوں کے مجمع کی خواہش رکھنے والے کو چند سوافراد نے کراچی میں خوش آمدید کہا، سندھ ہائی کورٹ میں اپنی پہلی ہی پیشی کے موقع پر جوتے کے حملے میں بال بال بچے، جان کو اتنا خطرہ ہے کہ سخت ترین سیکورٹی کے بغیر کہیں جا نہیں سکتے۔ الیکشن لڑنے کا خواب چکنا چور ہو چکا اور اب تو گرفتاری اور پھر جیل (چاہے گھر کو ہی جیل قرار دیا جائے) کی ہوا بھی کھانی پڑ رہی ہے اور یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ ابھی تو غداری کے سنگین کیس کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے جس کی سزا موت ہے۔ ان حالات میں مشرف سے بڑا نشان عبرت کون ہو سکتا ہے۔آج مشرف کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اس سابق ڈکٹیٹر کا تحفظ کرنے والی کرپشن میں لتھڑی NRO حکومت بھی رخصت ہو چکی۔ پاکستان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سابق آرمی چیف کو اُس کے جرائم کی سزا دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ دانستہطور پر مشرف کو سزا سے بچانے کے لیے شرارتاً بہانے بہانے سے بلواسطہ یا بلاواسطہ موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے احتساب کی بھی بات کر رہے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ جن ججوں نے مشرف کے 1999 کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا اور جو جرنیل نومبر 2007 میں مشرف کے ساتھ تھے اُن کے خلاف بھی آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ جن سیاستدانوں نے مشرف کی حکمرانی کے دوران اُس کا ساتھ دیا، جن اخبار نویسوں نے اُس کے حق میں لکھا اور جس پارلیمنٹ نے اُس کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا اُن سب پر بھی غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ گویا مقصد یہ ہے کہ مشرف کے مسئلہ کو اتنا گمبھیر بنا دیا جائے کہ کچھ بھی نہ ہو اور مشرف بچ کر نکل جائے۔ اس ساری صورتحال کو لندن میں مقیم ہمارے ایک دوست واجد عباسی عرف ”پاجی“ نے سب کو مشرف کے ساتھ عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا کرنے کی بات کے بارے میں کہا کہ یہ تو ”کٹّے کو کھولنے والی بات ہوئی“۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ ”کٹّے “ کو کھلا چھوڑنا چاہ رہے ہیں وہ دراصل الیکشن کو ملتوی کرانا اور مشرف کو بچاناچاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق ہی مشرف سے نمٹا جائے۔ مشرف جرائم کی سنگینی اپنی جگہ مگر یہ مشرف کا بھی حق ہے کہ اُن کوعدالتوں میں اپنا دفاع پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔