درمیانہ قد، بھرا بھرا سا جسم، چمکتی کشادہ آنکھیں جن سے ذہانت جھلکتی تھی، سرخ و سفید چہرہ، کشادہ پیشانی، بات بات پر محبت و شفقت کی آمیزشن میں گندھی ہوئی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے خوبصورت اور دلنشیں انداز میں مشکل سے مشکل موضوع کو آسان انداز میں واضح کرنے والے ماہر علوم ادیان، یہ ہیں ہمارے محترم و مکرم استاد گرامی جناب ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب۔ ان کو پہلی مرتبہ لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع علماء اکیڈمی میں دیکھا تو پہلا تاثر یہ تھا کہ کسی مسجد کے امام اور مخصوص عالم دین ہیں۔ ان کے سرپر سجی ہوئی قراقلی ٹوپی اور ان کی شیروانی سے دیکھنے والے کو یہی اندازہ ہوتا تھا۔ لیکن جب تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ آپ نہ صرف پنجاب یورنیورسٹی کے سینئر پروفیسر ہیں بلکہ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور بلاشبہ پاکستان کے لئے ایک وجہ افتخار تعلیمی ادارہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے منسلک ہونے والے بے شمار اساتذہ اور طلبہ اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں ویسے تو اس یونیورسٹی میں پڑھانا ہی بہت بڑا اعزاز ہے پھر اسے اس کے کسی شعبے کا سربراہ بننا ایک خاص مقام کا حامل بنا دیتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی اس طرح کے اعزاز و اکرام سے بے نیاز ایک درویش منش اور سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ عام طور پر دیکھا گیا کہ یونیورسٹی میں پڑھانے والے اسلامی علوم کی تدریس سے وابستہ بعض لوگ علوم اسلامیہ کی وہ گہرائی (DEPTH ) نہیں رکھتے جو مدارس اسلامیہ کے ماحول میں بیٹھ کر چٹائیوں پر مشائخ اور اساتذہ کے روبرو حاصل کی جاتی ہے۔ دراصل اسلامی مدارس اور کالجوں یونیورسٹیوں کی تدریس میں ایک واضح اور نمایاں فرق ہے۔ وہ ایک طرح کے اسلامی علوم جو کالجوں یونیورسٹیوں اور مدارس اسلامیہ میں پڑھائے جاتے ہیں ان کے پڑھانے کے طریق کار میں ایک جوہری تفاوت ہے۔ کالج اور یونیورسٹی میں ایک مخصوص نصاب کو سامنے رکھ کر اور چند کتابیں تجویز کرکے طلبہ کو ایک مخصوص دائرے کے اندر تحقیق کا خوگر بنایا جاتا ہے۔ طلباء کی پوری توجہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پرہوتی ہے وہ موضوع پر جتنا اچھا لکھ سکے اتنے زیادہ نمبر حاصل کرسکتے ہیں۔ جبکہ مدارس اسلامیہ میں ”تحریر“ سے زیادہ ”تقریر“ پر زور توجہ دی جاتی ہے استاد صاحبان اپنے شاگردوں کو ہدایات دیتے ہیں کہ وہ آنے والے کل کو پڑھائے جانے والے موضوع کا جسے ”سبق“ کہا جاتا ہے مطالعہ کرکے آئیں۔ دوسری صبح شیخ الحدیث صاحب شیخ الفقہ صاحب، شیخ التفسیر صاحب یا جو بھی استاد ہوں کسی بھی شاگرد کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ سبق کا آغاز کریں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاگرد کو عربی کی عبارت پڑھنا پڑھتی ہے۔ پھر اس کے مخصوص موضوع پر بحث کا آغاز کرنا ہوتا ہے پھر استاد صاحب باری باری تمام طلبہ سے ان کے خیالات معلوم کرتے ہیں اس کے بعد آخر میں بالعموم استاد صاحب بڑی تفصیل کے ساتھ اس موضوع کے ہر پہلو سے اظہار خیال کرتے ہیں۔ لغوی بحث ہوتی ہے منطق و فلسفہ کا بیان ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث سے دلال دیئے جاتے ہیں اور مختلف فقہی مسالک کے اختلاف کو بیان کیا جاتا اور آخر میں سوال و جواب کا وقفہ جاتا ہے تاکہ ابہام باقی نہ رہے۔ اس طرح ذہین اور علم کی جستجو اورلگن میں منہمک طالب علم اسلامی دینی مدارس سے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ جبکہ کالج اور یونیورسٹی کے اسلامی شعبہ میں بعض دفعہ صرف سطحی اور ظاہری پہلو پر توجہ دی جاتی ہے اس لئے گہرائی کی سطح سے طالب علم نا آشنا رہتے ہیں۔ بحمداللہ اس فقیر کو دینی مدارس اور کالجوں یونیورسٹی دو نوں طرح کے نظام تعلیم سے مستفید ہونے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے اور میں دونوں نظام ہائے تعلیم کی خوبیوں اوربعض خامیوں سے آگاہ ہوں مرے نزدیک دونوں میں اصلاح اور بہتری کی ضرورت اور گنجائش موجود ہے لیکن یہ بیان کرنے میں مجھے کوئی تامل نہیں ہے کہ دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ استاد کس طرح کا ہے ؟ اور شاگرد کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ اگر استاد کا دامن علم تنگ ہے اور شاگرد بھی صرف سند یا ڈگری کے حصول کی خواہش اورتمنا رکھتا ہے تو کہیں بھی پڑھ لے علم کی ”عین“ سے بھی روشناس نہیں ہوسکتا۔البتہ یہ دیکھا ہے کہ دینی مدارس میں چونکہ ایک خاص روحانی فضا ہوتی ہے اس لئے سنت مصطفوی ﷺ کی نسبت کی وجہ سے وہاں تھوڑی سی محنت کے بعد مجھ جیسا نکما طالب علم جب یونیورسٹی میں جاتا ہے تو اسلامی علوم کے حوالے سے اعتماد و یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی بلا شبہ ان اساتذہ میں تھے جنہیں سیکولر اور مذہبی تعلیمی اداروں سے اور جدید و قدیم علوم پر نظر رکھنے والے اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا اور ان میں ان دونوں طرح کے اداروں اور اساتذہ کی خوبیاں ایک حسین مرقع بن کر ان کی شخصیت کا نمایاں حسن بنا کر چھلکتی تھیں۔ جب وہ تقابل ادیان پر، ہندو فلسفہ، بدھ مت کی تاریخ کنفیوشس کی تعلیمات، یہودی نظریات اور عیسائی تحریفات پر لیکچر دیتے تو اپنے موضوع کے حوالے سے عصر دوراں کے ”محقق اعظم“ نظر آتے تھے اور جب وہ قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ کے حوالے سے بات کرتے تو ایک مبلغ، ایک مدرس اور مجتہد کی سی بصیرت کے حامل دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی کی سطح کے فاضلین کی علمی غلطیوں کو بے نقاب کیا۔ وہ کسی کی ذاتی طور پر ”تضحیک“ نہیں کرتے تھے لیکن ”تصحیح“ کے فریضے کو بھی کبھی نظرانداز نہیں کرتے تھے۔ وہ بلا شبہ ”استاذ الاساتذہ“ تھے۔ استادان گرامی کے استاد تھے۔ پروفیسر علامہ طاہر القادری اور پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی جیسے ان کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ وہ اپنے ہر شاگرد کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے اور یہ انہوں نے چند سال پہلے مجھے خود ارشاد فرمایا تھا کہ جب دینی مجلہ ماہنامہ ”ضیائے حرم“ کے لئے انٹریو لینے والی ٹیم نے ان سے چند قابل ذکر شاگردوں کا نام لینے کیلئے کہا تو انہوں نے ازراہ محبت میرا نام بھی ان چھ سات شاگردوں میں شامل کیا۔ جب انہوں نے مجھے اس سے آگاہ کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ میرے لئے کسی بڑی سی بڑی ڈگری سے بھی بڑھ کرہے۔ دوران طالب علمی انہوں نے مجھے حضرت مجدد الف ثانی پر لکھنے پر آمادہ کیا ان کی رہنمائی ہی میں نے ”حضرت مجدد اور دو قومی نظریہ“ کے عنوان سے ایک تفصیلی مقالہ لکھا جو تعلیمی قابلیت کی ضرورت بھی تھا لیکن یہ بالآخر میرے لئے وجہ افتخار بھی بن گیا محترم ڈاکٹر پروفیسر بشیر احمد صدیقی نے آستانہ شرقپور شریف کی زیر سرپرستی ماہنامہ ”نور اسلام“ کے مجدد نمبر میں اسے کتابی صورت میں شائع کرا دیا۔ جب میں نے سیرت طیبہ کے حوالے سے اپنی کتاب ”الرسول ﷺ“ لکھنے کی خواہش کا ان سے ذکر کیا تو بہت خوش ہوئے اور اپنی دعاؤں سے نوازا۔ کتاب مکمل ہوئی تو اس کے لئے پیش لفظ لکھا اور فرمایا کہ جب کتاب چھپ جائے تو مجھے پیش کرنا۔ کتاب لیکر حاضر خدمت ہوا تو حسب معمول خصوصی دعاؤں اور شفقتوں کی برکھا برسنے لگی۔ وہ چند سالوں سے علیل تھے اور بستر علالت پر رہتے تھے لیکن چہرے کی شگفتگی اور عالمانہ گفتگو کا وہی انداز علم اور قاسم علوم ﷺ سے ان کو خصوصی عشق تھا۔ #
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر