• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی شہر کے مسائل نصف صدی سے حل طلب ہیں، جب یہاں کراچی سرکلر ریلوے، ایس تھری، کے فور اور ماس ٹرانزٹ جیسے منصوبوں کی پلاننگ کی گئی تھی لیکن بد قسمتی سے یہ خواب اپنی تعبیر آج تک حاصل نہ کر سکا ۔ اس شہر میں اس وقت جو کچھ بھی باقی ہے وہ انگریزوں کے بنائے ہوئے منصوبے ہیں جس سے اس شہر کے عوام اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے پر مجبور ہیں، پرویز مشرف کے دور میں 2001سے 2010تک کراچی میں چند ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا گیا جس سے کراچی کی کچھ شکل تبدیل ہوئی لیکن 2001سے قبل کراچی کو اسکی اہمیت کے مطابق کوئی قابل ذکر منصوبہ نہ دیا گیا اور نہ اس شہر کی تعمیر و ترقی پر ایک دھیلہ تک خرچ کیا گیا۔

کراچی کے مسائل کو سمجھنے کے لئے ہم کو ورلڈ بنک کی اس رپورٹ کو دیکھنا ہوگا جو کم و بیش سب کے علم میں ہے کہ کراچی کی از سرِ نو تعمیر ، تزین و آرائش کے لئے دس ارب ڈالر درکار ہیں جو دس سال میں اس شہر پر خرچ کئے جائیں گے، جس کا مطلب ہے کہ سالانہ ایک ارب ڈالر کراچی کی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جائے جو ایک سو ساٹھ کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتا ہے تو شاید آئندہ دس برسوں میں کراچی کے عوام بنیادی شہری مسائل سے نجات حاصل کر سکیں۔ آجکل کراچی کے مسائل پرسیاسی جماعتیں اپنا اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے اپنے مدمقابل سیاسی جماعتوں پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کراچی کا مسئلہ بیمار کا نہیں ہے بلکہ بیماری کا مسئلہ ہے جب تک بیماری کی صحیح تشخیص اور علاج نہیں ہوگا بیمار کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ کراچی کی بیماری کی تشخیص کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اِس کے مسائل کا حل نہ وفاق کے پاس ہے اور نہ ہی صوبے کی ترجیح ۔

کراچی کے مسائل کو با آسانی سمجھنے کے لئے ہمیں تین نکات پر غور کرنا ہوگا ، کراچی کا مسئلہ بیک وقت سیاسی، انتظامی اور مالی ہے، سب سے بڑا مسئلہ سیاسی ہے کہ اس شہر پر ایک ایسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے جس کو کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں سے روائتی طور پر کبھی ووٹ نہیں ملا تو ظاہر سی بات ہے کہ اندرون سندھ سے منتخب ہو کر آنیوالےحکمرانوں کو یہ خطرہ ہی نہیں ہے کہ اگر ہم کراچی کے مسائل حل نہیں کرینگے تو آئندہ منتخب ہو کر ایوان میں پہنچنے میں دشواری ہو سکتی ہے ، دیہی سندھ سے منتخب ہونیوالے یہ دراصل وہ کراچی کے وسائل پر حکومت کرتے ہیں اور یہ وسائل الحمدللہ ہر سال بڑھ رہے ہیں تو انکی توجہ صرف ان وسائل پر ہوتی ہے اور ان وسائل کو سمیٹنے کے لئے وہ اپنے اعتماد کے انتظامی افسران کو اس شہر میں تعینات کرتے ہیں جو ایک اور بڑے سیاسی مسئلے کو جنم دیتے ہے، پولیس، بیوروکریسی، سول انتظامیہ ہو یا صحت اور تعلیم ، تمام اہم پوسٹوں پر منظور نظر افراد جنکا تعلق کسی اہم شخصیت کی برادری یا اس کے گاؤں سے ہو، خاندانی اور رشتے داری پر تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے ۔یہ سیاسی تعیناتیاں بھی اس شہر سے بے اعتنائی اور اور بے وفائی کی بڑی وجہ ہیں۔

اگر ہم مالی بے قاعدگیوں کی طرف نظر دوڑائیں تو 2008میں پورے صوبے کا بجٹ 267بلین روپے تھا لیکن اگر اب آبادی کے ساتھ اس شہر کے بڑھتے ہوئے وسائل کو بھی دیکھیں جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد صاحب نے فرمایا کہ یہ شہر لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ، کراچی شہر سندھ حکومت کو تقریباــــــــ تین سو ارب روپے کما کر دیتا جو سندھ حکومت کے بجٹ کا 94فیصد ہے، اسی طرح سندھ حکومت کو وفاق سے جو پیسے مل رہے ہیں ان میں بھی چار گنا اضافہ ہوگیا ہے یعنی 2008کا 267بلین کا بجٹ اس سال2020میں 1.3کھرب روپے ہو چکا ہے، کسی بھی صوبے کے مالی طور پر مستحکم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے،مگر اس شہر کے لئے سالانہ اوسطاََصرف تین ارب روپے رکھے جاتے ہیں جس میں سے خرچ ہونے والی رقم اس سے بھی کہیں کم ہے ۔ سندھ حکومت کے 2020 بجٹ کی کتابوں میں واضح طور پر درج ہے کہ 2019اور 2020میں تمام کی تمام منظور شدہ اسکیموں اور غیر منظور شدہ اسکیموں (جن کو اب تک کابینہ نے منظور نہیں کیا ہے) کی تعداد 156 ہے اور انکا تخمینہ 60ارب روپے ہے جن میں نو میگا پروجیکٹس کے علاوہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور سندھ سیکریٹریٹ کی تزین و آرائش، محکمہ اوقاف کے زیر انتظام چلنے والے مزارات، محکمہ صنعت، لائیو اسٹاک، پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ، اور لوکل گورنمنٹ سب ہی شامل ہیں۔

کراچی شہر کا سب سے اہم انتظامی مسئلہ یہ ہے کہ 2001سے 2010تک مشرف کے دور میں ایک میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہوا کرتا تھا اور ایک chain of commandتھی ، جسکے ذریعے یہ شہر زیادہ سے زیادہ کام کر سکتا تھا اور اس دوران خاطر خواہ بنیادی سہولتوں پر کام ہوئے لیکن موجودہ حکومت یہ بھول گئی کہ جب ایک سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تھی اور اسکے اٹھارہ ٹاؤن تھے تو ان ٹاؤنز کے ناظمین ایک سٹی ناظم کو جواب دہ تھے، تمام افسران ایک ڈی سی او اور سٹی ناظم کے ماتحت تھے جو ایک نظام کے تحت ڈسپلن کی پابندی کرتے تھے ، لیکن حکومت نے کراچی دشمنی میں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو ایک ناقص بلدیاتی نظام کے تحت ناکارہ بنادیا، 19سول محکمے کراچی کے انتظامی معاملات کے ذمہ دار ہیں اور یہ انتظام پورے پاکستان میں صرف کراچی شہر میں موجود ہے ، جب تک کراچی کو ایک کمانڈ کے تحت نہیں کیا جائیگا اِس کے مسائل حل نہ ہوں گے۔

کراچی کےمسائل کو حل کرنے کے لئے وفاق، اداروں، ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور بیوروکریسی کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور کراچی کا ایک مربوط پلان بنانا ہوگا۔ کراچی کے شہری ووٹ کسی کو بھی دیں، کراچی سب کا شہر ہے، ملک کا معاشی حب ہے، کراچی چلتا ہے تو پاکستان اور صوبے کا معاشی نظام چلتا ہے، ان سب چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں کراچی کی بلا تفریق خدمت کرنا ہوگی۔

تازہ ترین