• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ نئے امن معاہدے نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں اس معاہدے کی وجہ سے نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس معاہدے کے اعلان نے مقامی سطح پر ان کے گرتے ہوئے مقبولیت کے گراف کو سہارا تو دیا ہے مگر اس معاہدے کی وجہ سے مسلم امہ کے اتحاد کو نقصان پہنچا ہے اور فلسطین کی آزادی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔

قبل ازیں مصر کے مرحوم صدر انور سادات نے اسرائیل سے امریکی شہر کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر امن معاہدہ کیا تھا جس پر انور سادات نے دستخط کر کے اپنے نئے امن کی بنیاد رکھی تھی مگر ساری دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے مصر کے ہمسایہ ملک لبنان پر آتش و آہن کی کیسی برسات کی اور نہتے فلسطینیوں پر غزہ میں ظلم کے پہاڑ توڑے اور معاہدے کو تار تار کر دیا۔ اسرائیل نے اپنی تو سیع پسندانہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مصر میں اس معاہدے کو پسند نہ کیا گیا جس کے رد عمل کے طور پر انور سادات کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔

وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب اور ایران کے مابین مصالحتی کردار ادا کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ برادر ملک نے پاکستان کو دیے گئے ایک ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کر کے اپنے ارادے ظاہر کر دیے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کی طرف سے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر زبان بندی بھی بعید از فہم نہیں۔ پاکستان ایک سال سے کشمیر کو زبر دستی اپنا حصہ بنائے جانے پر بھارت کے خلاف او آئی سی کی طرف سے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کا اصرار کر رہا ہے مگر تمام کوشش، سعی لا حاصل ثابت ہو رہی ہیں۔ مسلم امہ کی واحد ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میںایسی تبدیلیاں لانا ہوں گی جس کی وجہ سے عرب ممالک بھی ناراض نہ ہوں اور مظلوم فلسطینیوں کے موقف کی حسب سابق پر زور مدد بھی کی جا سکے ۔ مسلم امہ میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل شروع سے اکھٹے چل رہے ہیں ۔ فلسطین اور کشمیر پر قابض ممالک نئی بستیاں آباد کر کے مسلم آبادی کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کے درپے ہیں۔ مسائل کی یکسانیت اور لالچ کی ہم آہنگی نے اسرائیل کو قدرتی طور پر بھارت کے مزید قربت کا موقع دیا اور نریندر مودی کے دور حکومت میں اسرائیل اور بھارت کے تعلقات عروج پر پہنچ گئے ۔موجودہ خارجہ پالیسی میں موجود خامیوں کی نشاندہی حکمران جماعت کے وزراء بھی سر عام کر رہے ہیں جبکہ سپہ سالار اعلیٰ کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ماضی کی سطح پر لانے کے لیے فوری طور پر سعودی عرب کا دورہ کرناپڑا ، موجودہ حالات میں خارجہ پالیسی کو نئے حالات کے مطابق ری ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے ۔جس میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھنا ہو گا۔

تازہ ترین