• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میسوپوٹیمیا، انسانی تہذیب کا اوّلین نقش

خاور نیازی

’’ میسوپوٹیمیا‘‘ جس کا موجودہ نام عراق ہے، دنیا کا قدیم ترین تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی پس منظر رکھنے والا مُلک ہے۔اس خطّے کو یہ نام یونانیوں نے دیا۔ یونانی زبان میں اِس کا مطلب ’’دریائوں کے درمیان‘‘ ہے۔ چوں کہ یہ تہذیب دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان پروان چڑھی، اِس لیے اسے ’’میسوپوٹیمیا‘‘ کا نام دیا گیا۔ میسوپوٹیمیا کے دارالحکومت، بابل کو دنیا کے قدیم ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ بھی کہ بیک وقت تین مقدّس مذہبی کتب قرآنِ پاک، انجیل اور توریت میں اس شہر کا ذکر ہے۔ بابل جسے یونانی’’ بے بیلون‘‘ (Babylon) کے نام سے یاد کرتے ہیں، موجودہ بغداد سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب کی جانب دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ 4000قبلِ مسیح کی تحاریر میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔فلسطین کی طرح اس سر زمین کو بھی انبیاء کرامؑ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہاں کے لوگ باقاعدہ زبان، ثقافت اور مذہب رکھتے تھے۔ 

عراق کے شمال مشرق میں شانیدر کے غاروں سے ملنے والے پچاس سے ساٹھ ہزار سال پرانے انسانی ڈھانچوں کی دریافت کے بعد ماہرین کا ان سے متعلق کہنا ہے کہ اُس دور کے لوگ باقاعدہ بات چیت کی صلاحیت رکھتے تھے اور رسومات بھی ادا کرتے تھے۔ مثلاً اپنے مَردوں کو پھولوں کے ساتھ دفناتے تھے۔ابو الفدا لکھتے ہیں کہ یہی وہ شہر تھا، جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آگ میں پھینکا، تاہم اب کھنڈرات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ البتہ ان کھنڈرات کے درمیان ایک چھوٹا سا غير معروف گائوں اب بھی موجود ہے۔ جہاں بابل کی قدیم عمارات یا مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے، وہیں اس کے ایک مشہور کنویں کا ذکر بھی دِل چسپی سے خالی نہیں، جو صدیاں گزرنے کے باوجود پُراسراریت قائم رکھے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ اس کنویں کو ’’چاہِ بابل‘‘ یعنی بابل کے تاریخی کنویں کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق، بابل، اسلام کی آمد سے طویل عرصہ قبل تباہ کر دیا گیا تھا۔ 400 ہجری میں عباسیوں کے دورِ حکومت میں فقط ایک چھوٹا سا گائوں بابل کے نام سے موجود تھا۔ مسیحی روایات کے مطابق بابل شہر قیامت سے قبل ایک مرتبہ پھر آباد ہوگا اور یہیں خیر و شر کی بڑی بڑی جنگیں لڑی جائیں گی۔ توریت کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام بابل میں رہتے تھے، جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا، تو حضرت آدم علیہ السّلام ناراض ہوئے، جس پر قابیل اپنے اہل وعیال کے ساتھ بھاگ کر بابل کے پہاڑوں میں چلا گیا۔ قابیل کی اولاد بڑھی، تو وہ پہاڑوں سے نیچے اُتر کر فسادات کرنے لگی، جس پر حضرت ادریس علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ’’ اُنہیں کوئی ایسی سر زمین عطا کر دے، جس میں بابل کی طرح دریا بہتا ہو۔‘‘ تب اُنہیں مِصر منتقل ہونے کا حکم ہوا۔ 

جب وہ مِصر پہنچے، تو وہاں کے ماحول کو خوش گوار پایا، اس مقام کا نام بابل سے ملتا جلتا’’ بابی لونیا‘‘ رکھا، جس کے معنی ’’خیر کی جدائی‘‘ ہے۔ 1750قبلِ مسیح میں بابی لونیا کے بادشاہ، حمورابی نے اسے اپنا پایۂ تخت بنایا اور نئے سرے سے اس کی تعمیر وترقّی کی کوششیں شروع کیں، تو یہ اُس دَور میں دنیا کا سب سے بڑا اور خُوب صُورت شہر بن گیا۔ 689قبلِ مسیح میں بادشاہ بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا اور اس کی تعمیر و ترقّی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ بخت نصر نے اپنی بیگم کے لیے جو محل تعمیر کروایا، وہ فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ ان منفرد باغات کو ماہرینِ تعمیرات ایک اچھوتا شاہ کار قرار دیتے ہیں۔ میسوپو ٹیمیا کو تاریخی طور پر ایک منفرد حیثیت اِس لیے بھی حاصل ہے کہ یہاں سے بے شمار تہذیبیں جنم لیتی رہیں۔ 

جیسے سمیریا، اکادی، اسیریائی، کلدانی، ساسانی اور بابل کی تہذیبوں کا مرکز میسوپو ٹیمیا ہی تھا۔ اسی خطّے نے پوری دنیا کو لکھنا سِکھایا۔ ابتدائی ریاضی، فلسفے اور سائنسی علوم کے اصول متعارف کروائے۔ اکادی سلطنت لبنان کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ لبنان وہ علاقہ ہے، جس نے ابتدائی حروف بنائے اور جہاز رانی کا ابتدائی علم متعارف کروایا۔ بابل نے حمورابی کی بادشاہت میں شہریت کے ابتدائی قوانین متعارف کروائے۔ چھٹی صدی قبلِ مسیح میں یہ علاقہ اگلے چار سو سال کے لیے سائرسِ اعظم کی سلطنت فارس (ایران) کا حصّہ بن گیا، جس کے بعد سکندرِ اعظم نے اسے فتح کیا اور پھر دو سو سال تک یونانی سلطنت کے زیرِ نگیں رہا۔ سکندرِ اعظم کے بعد ایرانیوں نے ساتویں صدی عیسوی تک اس پر راج کیا۔مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کے شہر، کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ عربوں نے اموی اور عباسی سلطنت کی صُورت میں عراق پر حکومت کی۔ عباسیوں ہی نے بغداد کو پہلی مرتبہ دارالحکومت بنایا، جسے 1258ء میں منگولوں نے ہلاکو خان کی قیادت میں تباہ وبرباد کردیا۔ یہ مُلک 16ویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت کا حصّہ بنا اور جنگِ عظیم اوّل تک اُس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1932 ء میں انگریزوں نے اسے آزادی دی۔

تازہ ترین