• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کے الیکٹرک کی کلرک اور منشی بنی ہوئی ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت میں ملک چلانے کی نہ صلاحیت ہے نہ ہی قابلیت، حکومتِ پاکستان کے الیکٹرک کی کلرک اور منشی بنی ہوئی ہے۔

کے الیکٹرک سے متعلق پاور ڈویژن کی رپورٹ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کراچی کے شہری اس وقت کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک پر وفاق کی رٹ نہیں تو مطلب ہے کہ پورے ملک میں حکومت کی رٹ نہیں۔

سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک پر جمع کرائی گئی پاور ڈویژن کی رپورٹ پر اظہارِ برہمی کیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس پاور ڈویژن والے افسر نے رپورٹ جمع کرائی اسے پھانسی دے دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن کی رپورٹ کے الیکٹرک سے پیسے لے کر بنائی گئی، کیوں نہ ایسی رپورٹ پر جوائنٹ سیکریٹری کو نوکری سے فارغ کر دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاور ڈویژن والوں کو کراچی لے جائیں، دیکھیں لوگ کیسے ان کو پتھر مارتے ہیں، کراچی جا کر ان لوگوں کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں مال بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، لوگوں کے بیرونِ ملک بینک اکاؤنٹس حرکت میں آ گئے ہوں گے، فارن بینک اکاؤنٹس میں پیسے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومتی معاملات سمجھ سے باہر ہیں، پٹرول کے معاملے پر کمیشن کا کیا فائدہ، جس نے کام کرنا تھا وہ کر گیا، سانپ نکل گیا ہے اور آپ لکیر پیٹ رہے ہیں، اس وقت عوام کے فائدے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے موجودہ صورتِ حال پر رپورٹ مانگی تھی، انہوں نے مستقبل کا لکھ دیا مستقبل کو چھوڑ دیں، اب کیا کر رہے ہیں اس کا بتایا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ کراچی میں بارشوں کی وجہ سے صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کے الیکٹرک نے 2015ء سے رقم جمع نہیں کرائی، آپ لوگ ان کے ترلے کر رہے ہیں۔

کمرۂ عدالت میں سیکریٹری پاور ڈویژن پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کو کے الیکٹرک والوں نے کتنے پیسے دیئے ہیں جواب جمع کرانے کے؟

چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ اداروں کی آپس میں کوئی ہم آہنگی نہیں،اس بار بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو سبسڈی دے رہی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ نیپرا اور دیگر ادارے کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا حل نکال کر آئیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آج بھی آدھا کراچی پانی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، لوکل گورنمنٹ 4 سال تک رہی مگر اس نے ایک نالی تک نہیں بنائی، لوکل گورنمنٹ والوں کو جتنے بھی پیسے ملے وہ تنخواہوں پر خرچ کیے گئے ہیں، کراچی میں کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ ہے لیکن ان کے ملازم نظر نہیں آ رہے، لگتا ہے کہ سارے گھوسٹ ملازمین بھرتی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پہلے 60 سے 70 فیصد ریونیو دیتا تھا، اب اس کے پاس کچھ نہیں ہے، شہر کی دیکھ بھال کا ذمہ حکومت کا ہے، ہمیں علم ہے کہ کراچی کے کرتے دھرتے کچھ نہیں کریں گے، شہریوں کے منہ سے نوالا بھی چھین لیا جاتا ہے، اٹارنی جنرل صاحب کراچی میں حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کراچی کے شہری اس وقت کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کے الیکٹرک والے کراچی شہر کے ساتھ بہت برا کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاور ڈویژن کا جواب واپس لیتا ہوں، نیا جواب جمع کرائیں گے، کے الیکٹرک کے پاس پیداواری صلاحیت نہیں تو پھر اس کا بجلی کی پیداوار کا خصوصی اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے الیکٹرک کے خصوصی اختیار کا معاملہ ختم ہی کر دیتے ہیں۔

کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ کے الیکٹرک شہر میں 2900 میگا واٹ بجلی سپلائی کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب کے الیکٹرک نے معاہدہ کیا تھا تب بھی شہر کی صورتِ حال ایسی تھی۔

یہ بھی پڑھیئے:۔

سپریم کورٹ، وفاقی حکومت کو کے الیکٹرک کیخلاف کارروائی کا حکم

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کے الیکٹرک والے اسٹے آرڈر لے کر 5 سال تک بیٹھے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جس دن سے نوٹس لیا ہے شہر کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے، شہر سے باقی سارا جوس نکال لیا ہے، جو چند قطرے بچے ہیں وہ بھی نکال رہے ہیں، پاور ڈویژن والے لکیر کے فقیر ہیں، جواب تیار کرتے وقت اپنا دماغ تک استعمال نہیں کیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ تمام حکومتی ادرے کے الیکٹرک کی معاونت کے لیے ہیں، پاور ڈویژن کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے، سیکریٹری پاور ڈویژن آپ اپنی سمت درست کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے پاس اختیارات ہیں اس کا استعمال کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت عوام کے فائدے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ زبانی کلامی کچھ نہیں ہو گا، ادارے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی کا ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں شہری سکون سے رہ سکیں، حکومت کو بے بس کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے پاس اہلیت نہیں، پاور سیکٹر کے پاس کام کرنے کا دم نہیں، ملک میں پیٹرول کا بڑا اسکینڈل آیا، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آ گئی، 10 روز تک ملک مکمل بند رہا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پیٹرول کے معاملے پر کمیشن بنایا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کمیشن کا کیا فائدہ جس نے کام کرنا تھا وہ کر گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سانپ نکل گیا ہے اور آپ لکیر پیٹ رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد نے یہ بھی کہا کہ حکومتی معاملات سمجھ سے باہر ہیں،کے الیکٹرک کے مسائل حل کرنے کے لیے ون ونڈو آپریشن کیوں نہیں کیا گیا۔

تازہ ترین