سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کے معاملے میں حکم دیا ہے کہ سی ای او کے الیکٹرک کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔
دورانِ سماعت کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) سید مونس عبداللّٰہ علوی اور نیپرا کے چیئرمین توصیف فاروقی عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے حکم دیا کہ کے الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے، کے الیکٹرک کا پورا حساب لیا جائے کہ اس ادارے نے کتنی تاریں لگائیں۔
انہوں نے حکم دیا کہ کے الیکٹرک سے ہر قسم کا مکمل حساب لیا جائے، کراچی والوں کی بجلی بند کرنے پر جتنا جرمانہ لگتا ہے تو لگائیں، کے الیکٹرک نے کراچی میں کچھ بھی نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ پورے کراچی میں ارتھ وائر کاٹ دی ہیں، ان کے خلاف قتل کے کیس بنائیں، ساری انتظامہ کے خلاف مقدمہ دائر کریں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں ایک منٹ بھی بجلی بند کریں تو نیپرا فوری نوٹس لے، گزشتہ رات میں کراچی آیا تو شارعِ فیصل کی پوری لائٹیں بند تھیں، علاقے میں پورا اندھیرا تھا، لوگ گھروں سے باہر بیٹھے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے حکم دیا کہ کرنٹ لگنے سے جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان تمام کی ایف آئی آر میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام ڈالیں۔
عدالت نے کے الیکٹرک کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ابھی 21 لوگ مرے ہیں، آپ بھی کراچی کے شہری ہیں، آپ کو بھی احساس ہونا چاہیے، آپ جا کر اسٹے لے لیتے ہیں۔
کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ لوگ گھروں میں مرے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی کا کوئی نہ کوئی فالٹ ہوتا ہے تو بندا مرتا ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ سڑکوں پر بھی لوگ مرے ہیں، شہر سے ارتھ وائر ہی ختم کر دیئے گئے ہیں۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ رننگ وائر میں سے ارتھ وائر نکال دیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم آپ کے غیر ملکی مالکان کی ذہنیت سمجھتے ہیں، وہ ہمیں غلام سمجھتے ہیں، وہ پاکستانیوں کو کچرا سمجھتے ہیں، ان کے تو اونٹ کی قیمت بھی پاکستانی سے زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ ہونے پر چیئرمین نیپرا سے اس کا متبادل پوچھ لیا اور کہا کہ ان کا لائسنس معطل ہوجائے تو آپ کے پاس کیا متبادل ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب سے انہوں نے ٹیک اوور کیا ہے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے، یہ کون ہوتے ہیں کہ آ کر ہمیں اور کراچی والوں کو بھاشن دیں؟
انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ کراچی والے بجلی چوری کرتے ہیں، یہ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے؟ کراچی والوں کو بھاشن مت دیں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ایک منٹ کے لیے بھی کراچی میں بجلی بند نہیں ہونی چاہیے، سمجھے آپ؟
سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ پچھلے 10 سال میں ڈھائی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جتنی آپ نے سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ نقصان کیا ہے، کے الیکٹرک نے پوری دنیا میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پتہ ہے جب بجلی بند ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے؟ عورتیں دہائی دیتی ہیں، ان کا احساس ہے آپ کو؟ آپ پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں،آپ پر بڑے بڑے جرمانے لگے ہیں۔
سی ای او کے الیکٹرک نے جواب دیا کہ میں خود کراچی کا ہوں، یہیں پیدا ہوا ہوں۔
جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کراچی والوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے تنبیہہ کی کہ اچھی طرح بات سن لیں، کراچی کی بجلی بند نہیں کریں گے، بجلی بند کرنی ہے تو اپنے دفتر کی بند کریں۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ میں نے بھارت کے کیسز اسٹڈی کیے، بورڈ ایسی کمپنیز کو ٹیک اوور کر لیتا ہے، انہوں نے سارا انفرا اسٹرکچر تبدیل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق بھی کے الیکٹرک کو بجلی دیتا ہے اور یہ خود بھی بجلی پیدا کرتے ہیں، یہاں سے پیسہ کما کر پوری دنیا میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
سی ای او کے الیکٹرک نے بات کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں روک دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سی ای او کے الیکٹرک کو حکم دیا کہ یہاں تقریر مت کریں کام کریں، اسی لیے قوم نے آپ پر اعتبار کیا تھا، انہوں نے پورے شہر پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کی جان نکال کر عدالتوں سے حکمِ امتناعی لے لیتے ہیں، حکومت میں ان کی لابی چلتی ہوگی، عدالت میں ان کی کوئی لابی نہیں چلے گی۔
سی ای او کے الیکٹرک نے عدالت کو بتایا کہ 2010ء میں لائن لاسز 42 فیصد تھے جو اب کم ہو کر 26 فیصد رہ گئے ہیں۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ کے الیکٹرک میں 25 فیصد پاکستانیوں کے شیئرز ہیں۔
سی ای او کے الیکٹرک نے بتایا کہ گزشتہ تین چار سال سے کسی ایک شیئر ہولڈر کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا، کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار کے الیکٹرک نہیں ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شہر میں کرنٹ لگنے سے سڑکوں پر بھی اموات ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: چیف جسٹس آج بھی کراچی میں عدالت لگائیں گے
سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ کورنگی اور لیاری میں انویسٹمنٹ کی ہے تاکہ لائن لاسز کم ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک نے جتنی انویسٹمنٹ کی، اس سے زیادہ نقصان کیا ہے، سارے تانبے کے تار اتار لیے گئے ہیں۔
سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ کراچی سے جتنا پیسہ کماتے ہیں لگا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کے الیکٹرک والے پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں، لندن میں ان کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔
عدالت نے چیئرمین نیپرا کو ہدایت کی کہ کے الیکٹرک کو مکمل طور پر مانٹیر کریں، کراچی کے کسی علاقے میں بھی ایک لمحے کے لیے بجلی بند نہیں ہونی چاہیے۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ہر چیز مفلوج کر دی ہے، تفصیلی تفتیشی رپورٹس موجود ہیں، کمپنی شنگھائی کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگر بجلی چوری ہوتی ہے تو پورے علاقے کو سزا دینا کون سا انصاف ہے۔
چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کے سربراہ سے کہا کہ آپ غریبوں کو بیس بیس ہزار کا بجلی کا بل بھیجتے ہیں؟ جس قسم کی سروس ہوگی تو ویسا ہی رسپانس ہو گا۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کے سامنے وفاقی اور صوبائی حکومت بے بس ہے، کچھ تو جادو ہے ان کے پاس۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کچھ انڈر دی ٹیبل ہوتا ہوگا پھر؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بازار اور کاروبار بند تھا، پھر بھی اتنی بجلی جا رہی تھی، میرے پاس تو موبائل پر تین چار دفعہ میسیج آ جاتا ہے کہ بجلی بند ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس بجلی ہے نہ پانی ہے، عجیب حال ہے، جب گھر میں سکون نہیں ہو گا تو کیسے لوگ خود کو کورنٹائن کریں گے؟
چیئرمین نیپرا نے کہا کہ نئی کمپنیز کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی تو کے الیکٹرک نے اسٹے لے لیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا کہ کرنٹ لگنے کا مقدمہ کے الیکٹرک حکام کے خلاف درج کیا جائے گا، آئندہ کوئی بھی واقعہ ہوا تو سی ای او سمیت تمام حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے نیپرا کی کارروائی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے حکمِ امتناع کی تفصیلات طلب کر لیں۔
عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ کے الیکٹرک کی درخواستوں پر دیئے گئے اسٹے کی تفصیلات پیش کریں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو کے الیکٹرک سے متعلق ٹریبونلز فعال کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سی ای او کے الیکٹرک سے کہا کہ آپ کو لوڈ شیڈنگ کرنے کا کوئی اختیار نہیں، بجلی کی کمی ہے تو خریدیں اور لوگوں کو دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے حکم دیا کہ آپ شارٹ فال پر قابو پانے کے لیے بجلی پیدا کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو لو ڈشیڈنگ کے لیے نہیں لایا گیا ہے، آپ کے مالک جو باہر بیٹھے ہیں ان کا سوچ رہے ہیں۔
سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ ہم کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجتے، ریکارڈ دیکھ لیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سب انڈر ہینڈ ہوجاتا ہے، بھر بھر کے یہاں سے پیسہ چلا جاتا ہے۔
چیئرمین نیپرا نے کہا کہ میں خود گراؤنڈ رئیلیٹیز بتانے آیا ہوں۔
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ اپنے ادارے کی بھی گراؤنڈ رئیلیٹیز بتائیں، وہاں بھی حالات خراب ہیں۔
چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بیان دیا کہ نئے قوانین بن گئے ہیں، اب کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرنے کا بھی اختیار مل گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم بجلی بنانے کے دوسرے طریقوں پر کام کیوں نہیں کرتے؟
چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک کو ہدایت کی کہ آپ ایک سو ارب روپے ڈپازٹ کرائیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کے الیکٹرک نے واٹر بورڈ کی بجلی بھی کاٹ دی تھی، وفاقی حکومت نے یقین دلایا تھا کہ واٹر بورڈ پیسے نہیں دے گا تو وفاق دے گا، معاہدے کے مطابق سندھ حکومت واجبات ادا کر رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ آپ پانچ پانچ ارب روپے کی گاڑیاں منگواتے ہیں، جن کے واجبات ہیں آپ وہ تو دیں، آپ ایمبولینس، فائر بریگیڈ خریدیں مگر لگژری گاڑیاں خریدنے کا کیا مطلب ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ یہ آپریشنل گاڑیاں ہیں، دو سو گاڑیاں پولیس کے لیے ہیں، آئی جی کے لیے نہیں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ آپ بسیں منگوائیں، لوگوں کی زندگیاں بچانےکے لیے ایمبولینسیں منگوائیں، مگر آپ لوگوں کے گھومنےکے لیے اے سی گاڑیاں منگواتے ہیں۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پچھلے سال 35 میں سے 19 ہلاکتوں کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے، ہلاکتوں سے متعلق نیپرا کی رپورٹ موجود ہے، مسئلہ نیپرا قوانین کے نفاذ کا ہے، یہ اپنے قانون کو لاگو نہیں کرتے۔