• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈپریشن دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ہے۔ ڈپریشن کی وجہ سے صحت کے ساتھ ساتھ سونے جاگنے کےمعمولات، فیصلہ سازی یا صحت مند سرگرمیاں، یہاں تک کہ فیملی کے ساتھ روا رکھےجانے والے پیار و محبت کے تقاضے بھی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ذہنی تنائو، پریشانی، اسٹریس یا ڈپریشن کی وجہ کیا ہے لیکن بعض اوقات یہ بھی پتہ نہیں ہوتاکہ آخر ڈپریشن ہو کیوں رہاہے؟ یہ سب چیزیں مزاج میں تبدیلی (موڈسوئنگ) کی وجہ سےبھی ہو سکتی ہیں۔ 

مزاج میں تبدیلی کے کئی محرکات بھی ہوسکتے ہیںاور اس کا ڈپریشن یا اسٹریس سے گہرا تعلق ہوتا ہے، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ ذہنی دبائو پر قابو پالیتے ہیں، لیکن عام طور سے خواتین متاثر ہوجاتی ہیں۔ ذہنی دبائو کی وجوہات میں ازدواجی زندگی کے مسائل، مالی پریشانیاں، غیرتسلی بخش تعلیمی کارکردگی، روزگار کا نہ ملنا، بچوں کا خراب طرزِ زندگی ، آفس کولیگز کا خراب رویہ یا اختلافات وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام وجو ہات یا ان میں سے کوئی ایک وجہ ڈپریشن کی وجہ بنتی ہے اور جب متاثرہ شخص اپنی فرسٹریشن کا اظہار نہیں کرپاتا تو وہ غصہ کرتا ہے یا پھر مزاج کی تبدیلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ 

ہارمونز میں تبدیلیاں بھی ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں، جس سے بچنے کیلئے ماہرین کچھ باتوں پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں،جیسے کہ نیند پوری کرنا، رات کو جلدی سونا، صبح جلد بیدار ہونا، کیفین کا استعمال کم کرنا، متوازن غذائیں استعمال کرنا، زیادہ سے زیادہ پانی پینا، ورزش کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ کسی مشغلہ یا مصروفیت جیسے کہ مصوری، سلائی کڑھائی یاپھر باغبانی میں مشغول ہو کر آپ اپنی پریشانیوں کو تھوڑی دیر کیلئے بھول سکتے ہیں۔

باغبانی دلچسپ مصروفیت

انسان فطرت سے قریب رہنا چاہتاہے، اسی لئے اسے باغوں، ہریالی یا سبزہ زار والے مقامات پر گھومنا پھرنا پسند ہے اور فطرت سے یہ قربت اس کے دماغ پر اچھا اثر ڈالتی ہے۔ باغبانی کا مشغلہ قدرت سے قریب ہونے کا ایک زبردست ذریعہ ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ہی ہرے بھرے پودے اور رنگ برنگے کھلے ہوئے پھول دیکھیں گے تو اپنی پریشانیاں وقتی طور پر بھول جائیں گے۔ 

کچھ نہ کریں تو اپنے ٹیرس میں سبزیوں اور پھولوں کے چند گملے رکھ کر ان کی دیکھ بھال کرکے آپ اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔ جب آپ مٹی کو چھوتے ہیں تو آپ کے دماغ میں خوشی کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جس سے آپ خود کو بہتر محسوس کرتے ہیںاور آپ کی طبیعت پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔

ذہنی تناؤ میں کمی

بنیادی طور پر ذہنی دبائو ایک خاص قسم کے ہارمون کارٹیسول کے اخراج سے ہوتاہے اور ایک تحقیق سے ثابت ہوا کہ باغبانی کرنے والے افراد میں یہ ہارمون کم خارج ہوتے ہیں بنسبت ان لوگوں کے جو باغبانی نہیں کرتے۔ واشنگٹن میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے وابستہ ڈاکٹر فلپ اسمتھ کے مطابق انسانی زندگی پر باغبانی کے بہت عمدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے آپ بیٹھے رہنے اور وقت ضائع کرنے کی بری عادت ترک کرنے لگتے ہیں۔ فطرت کے قریب بیٹھنے سے آپ کا ذہنی تنائو کم ہوتاہے اور سب سے بڑھ کر آپ کو پھل و سبزیاں مرغوب لگنے لگتی ہیں۔ بہت سے پھل اور سبزیاں بھی ذہنی تنائو کم کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔

ایک اور سائنسدان ڈاکٹر شیرلوٹ پراٹ کا کہنا ہے کہ باغ اورکھیتوں میں کام کرنے سے جسمانی، دماغی اور ذہنی صحت بہتر رہتی ہے اور بلڈ پریشر کنٹرول میں رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ ایک تحقیق کے مصنف پیٹر جیمز کا کہناہے کہ انہوں نے خاص طور پر ہریالی کا ذہنی صحت پر انتہائی اہم اورمثبت اثر دریافت کیاہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق سبزہ زار اور پودوں کے ارد گرد رہنےوالی خواتین میں ڈپریشن کی سطح 30فیصد کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ باغبانی ہماری معاشرت کو خوبصورتی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کا تحفہ بھی دیتی ہے۔

ذہنی صلاحیت میں بہتری

باغبانی کی مصروفیت کی وجہ سے آپ خود کو دماغی طور پر فٹ بھی رکھ سکتے ہیں، اس سے صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتاہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدگی سے باغبانی کرنے والے افراد کا دماغ تیز کام کرتاہے اور ان میں الزائمر جیسے خطرناک دماغی امراض ہونے کے خطرات 50فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ 

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق پھول پودے یا درخت چاہے گملوں میں ہی کیوں نہ ہوں، ان سے انسانوں کو بہت سکون ملتاہے، اسی لیے وہ خلانوردوںکیلئے بھی ان کا انتظام کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ تمام وقت ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے رہیں ، ہرے بھرے پودے ان کو خوشی فراہم کرتے ہیں اور اس سے ان کی نظر اور ذہنی حالت بہتر ہوتی ہے۔

طویل عمر کا راز

ایک جائزے کےمطابق قدرتی ماحو ل یا ہریالی والے علاقوں(جیسے ہمارے ملک کے شمالی علاقہ جات، ہنزہ اور گلگت) میں رہنے والے لوگ ان لوگوں کی نسبت طویل عمر پاتے ہیں جو کم ہریالی والے علاقوںمیں رہتے ہیں۔ قدرتی ماحول میں رہائش پزیر لوگوںکی شرح اموات بھی نمایاں طور پر کم دیکھنے میں آئی ہے۔

تازہ ترین