آج گیارہ ستمبر اورقائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان کا یوم وفات ہے۔ آج جمعہ کا مبارک دن ہے اسے آپ حسین اتفاق سمجھیں یا قدرت کی رمز کہ اس سال 14اگست کا دن بھی جمعہ تھا اور 25دسمبر قائداعظم کا یوم پیدائش بھی جمعہ کا دن ہو گا۔ اس حسن اتفاق میں یہ اضافہ بھی کر لیں کہ 16اکتوبر لیاقت علی خان کایوم شہادت بھی جمعہ کا دن ہو گا۔ میں نے قائداعظم کے یوم وفات گیارہ ستمبر 1948ء سے لیکر 2020ء تک کا چارٹ بنایا ہے ۔حیرت ہے کہ ہر سال یوم پاکستان، قائداعظم کا یوم وفات و پیدائش اور لیاقت علی خان کا یوم شہادت ایک ہی دن ہوتے ہیں۔اگرقائداعظم کا انتقال گیارہ ستمبر کی بجائے بارہ ستمبر کو ہوتا یا لیاقت علی خان کی شہادت 17اکتوبر کو ہوتی تو یہ حسین اتفاق جنم نہ لیتا۔یہ قدرت کا انتظام ہے اور قدرت کے نظام پر تدبر کرنے والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔جو ذہین و فطین روشن خیال زندگی سے قدرت کے فیکٹر کو خارج کر دیتے ہیں وہ ایسے معاملات کے ادراک سے محروم ہو جاتے ہیں۔
قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے محسن اعظم ہیں جن کےلئے جتنی دعا اور ایصال ثواب کیا جائے کم ہے۔ افسوس کہ ہم نے قائداعظم کو بھی نہیں چھوڑا اور ان کے کوئٹہ و زیارت کے قیام سے لیکر 11ستمبر کو کراچی آمد تک کے عرصے سے بہت سی سازشی کہانیاں منسوب کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کیونکہ یہ سارے افسانے بے بنیاد ہیں۔
ان موضوعات پر طالب علمانہ تحقیق کرکے میں کئی دفعہ وضاحت کر چکا ہوں اس لئے آج میں جھوٹ کے ان پلندوں کو چھیڑنا نہیں چاہتا۔ میرا آج کا فوکس قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی پاکستان بارے گفتگو پر ہے کہ انہوں نے حصول پاکستان سے لیکر مستقبل تک کیا کہا، کن خوابوں کا ذکر کیا اور کس طرح اپنے معالجین کے سامنے تنہائی میں دل کھول کر اپنے احساسات سے پردہ اٹھایا۔
قائداعظم کے خصوصی معالجین کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی کتابیں پڑھ کر ایک سوال بار بار میرے ذہن میں ابھرتا ہے جسے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ایک بات طے ہے اور تاریخ بھی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ قائداعظم سچے اور کھرے انسان تھے میں نے قائداعظم پر جتنی کتابیں پڑھی ہیں وہ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں جسے نہایت واضح انداز میں قائداعظم کے معالجین نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ یہ معالجین زندگی کے آخری دو ڈھائی ماہ قائداعظم کے نہایت قریب رہے اور قائداعظم نے بھی ان سے کھل کر دل کی باتیں کیں۔قائداعظم کی معتبر سوانح عمریاں بتاتی ہیں کہ جب 1946ء میں قائد اعظم نے بیرون ملک اپناطبی معائنہ کروایا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا معدہ درست کام نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے تفصیل سے لکھا ہے کہ جب شروع شروع میں انہوں نے قائداعظم کا چیک اپ کیا تو قائداعظم نے انہیں بتایا کہ میرا معدہ ٹھیک کام نہیں کر رہا اور یہ بات انہیں بیرون ملک ڈاکٹروں نے بھی بتائی تھی۔بقول کرنل الٰہی بخش وہ بضد تھے کہ انہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ڈاکٹر الٰہی بخش کو جب ٹی بی کا شک پڑا تو اس نے مزید تحقیق کے لئے ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ڈاکٹر عالم اور ڈاکٹر غلام محمد کو بلایا۔ ایکسرے، بلڈ ٹیسٹ، بلغم ٹیسٹ وغیرہ کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کو ٹی بی ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ اصل مرض مریض سے مخفی رکھیں لیکن مادر ملت کے مشورے پر انہوں نے قائداعظم کو اپنی مکمل تشخیص بتادی۔انہوں نے تحمل سے ساری بات سنی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں پہلے سے اپنے مرض کا علم تھا تو انہوں نے اپنے معالجین سے اس کا ذکر کیوں نہ کیا۔وہ ایک سچے انسان تھے وہ معدے کی خرابی پر کیوں بضد رہے جب ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ان کی ٹیم نے مرض کی تصدیق کر دی تو پھر بھی انہوں نے کیوں نہ کہا کہ ہاں بمبئی کے ایک ہندو ڈاکٹر پٹیل نے دو سال قبل اس کی نشاندہی کی تھی کیونکہ اب پاکستان بن چکا تھا اس لئے انہیں اسے راز میں رکھنے کی ضرورت نہ تھی ۔ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی تشخیص کے مطابق یہ مرض دو سال پراناتھا۔اگر انہیں آغاز میں ہی بیماری کا علم ہو گیا تھا تو انہوں نے اس کے لئے دوائیں کیوں استعمال نہ کیں کیونکہ اس وقت اس مرض کا علاج دوائیوں سے ہو سکتا تھا۔پھر یہ مرض مادر ملت سے کیسے اوجھل رہا؟مادر ملت کو اس کی بھنک پڑتی تو وہ خود دوائیوں کا اہتمام کرتیں اور چاہے خفیہ ہی سہی اس مرض کا علاج کرتیں۔تاریخی طور پر ڈاکٹر پٹیل کی تشخیص اور اسے خفیہ رکھنے کی کہانی فریڈم ایٹ مڈنائٹ کے مصنّفین نے اچھالی اور مائونٹ بیٹن تک سے یہ کہلوا دیا کہ اگر مجھے اس مرض کا علم ہوتا تو آزادی میں تاخیر کرکے اسے ٹالا جاسکتا تھا۔کئی برس قبل قائد اعظم یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر نعیم قریشی نے مجھے بتایا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق یہ ساری بات محض ایک افسانہ ہے وہ کتاب لکھ رہےتھے نہ جانے کیا ہوا؟
موت زندگی کی سب سے بڑ ی حقیقت ہے اور جب موت قریب آتی محسوس ہو تو انسان ہر خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے جذبات، تجربات اور محسوسات بیان کرتا ہے ۔ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں ۔میں قائد اعظم کے اشارے پر ان کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا انہوں نے کہا میں نے آج تک کبھی اپنی صحت کی پروا نہیں کی۔موت اور زندگی سب اللہ کی جانب سے ہے میرا ایمان ہے موت کا وقت معین ہے میں خداوند قدوس کے سوا دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتا۔ایک روز فرمانے لگے ’’پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے میری روح کو تسکین ہے کہ برعظیم میں مسلمان غلام نہیں وہ ایسی مملکت کے مالک ہیں جس کا مستقبل روشن ہے۔ ان شاءاللہ پاکستان دنیا کا عظیم ترین ملک بنے گا۔یہ محسوس کرکے کہ میری قوم آزاد ہے، میرا سر عجزونیاز سے بارگاہ رب العزت میں جھک جاتا ہے۔ قائداعظم کی آنکھیں چمکنے لگیں، آواز بلند ہو گئی۔ فرمایا یہ مشیت ایزدی ہے، یہ حضرت محمد ﷺ کا روحانی فیضان ہے کہ جس قوم کو برطانوی سامراج اور ہندو سرمایہ دار نے حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازش کر رکھی تھی آج وہ قوم آزاد ہے اس سے بڑھ کر خدا کا اور کیا انعام ہوسکتا ہے یہی وہ خلافت ہے جس کا وعدہ خداوند تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ سے کیا تھا خدا کے اس انعام عظیم کی حفاظت اب مسلمانوں کا فرض ہے۔‘‘
میں اور ڈاکٹر الٰہی بخش کوئٹہ میں قائداعظم کے پاس تھے فرمانے لگے چند سال قبل میری آرزو تھی کہ زندہ رہوں کہ جو کام قدرت نے میرے سپرد کیا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائوں، وہ فرض ادا کر چکا ہوں میں تھک گیا ہوں ،آرام چاہتا ہوں گھبرائو نہیں خدا پر اعتماد رکھو اپنی صفوں میں کج نہ آنے دو۔ ان شاءاللہ قدرت تمہیں مجھ سے زیادہ ذہین رہنما عطا کرے گی۔ کہتے کہتے قائداعظم کی ایک آنکھ سے ایک موٹا سا چمکدار آنسو مسہری پر گرا اور انہوں نے کمبل سے منہ ڈھانپ لیا۔(قائد اعظم کے آخری لمحات از ڈاکٹر ریاض علی شاہ )ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے مطابق 11ستمبر 1948ء کو رات دس بجکر 25منٹ پر ان کا انتقال ہوا ان کے آخری الفاظ تھے ’’اللہ۔ پاکستان‘‘۔
مرتے دم بھی پاکستان کا خیال۔ پاکستان سے اس قدر محبت۔ سبحان اللہ