• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب کا معاونین و مشیران کا تجربہ وقت کی شاید اہم ضرورت تھا کیونکہ سبھی آشنا ہیں کہ کابینہ و اسمبلی میں منتخب اراکین ضرورت سے زیادہ سمجھدار اور تجربہ کار ہیں۔ گو معاونین و مشیران میں، سیانوں کی کمی نہیں مگر پھر بھی خان کی کوشش کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنوں نے احسان فراموشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی!

پہلی بات تو یہ کہ منتخب نمائندوں کے نزدیک غیرمنتخب کو سامنے لانا ناپسندیدہ عمل تھا جس کا اظہار وہ دانستہ و نادانستہ پیرائے میں خواص و عوام سے اکثر کرتے نظر آئے۔ دوسری بات، درآمد شدہ صلاح کاروں کے صالح اور تابع ہونے پر بھی منتخب اکابرین کو اعتراض تھا۔ کچھ غیرجانبدار حلقوں کو سکون اس وقت نصیب ہوا جب فیصل سلطان کو وفاق میں نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن و کوآرڈنیشن (امور صحت) کا قلم دان سونپا، یہ ایک بڑا جاندار فیصلہ تھا کیونکہ یہاں منتخب راہبران و زاہدان کو اعتراض کی جرأت ذرا مشکل ہی سے ہونی تھی البتہ لال پیلے ہونے کا حق تو اُن سے چھیننا ممکن نہ تھا۔ عوام کو یہاں تسلی اس لئے محسوس ہوئی کہ فیصل سلطان شوکت خانم میموریل اور کینسر اسپتال کے کامیاب سی ای او ہیں۔ خان کے ڈاکٹر فیصل سلطان اگر کامران ہو جاتے ہیں تو بسم اللہ۔ گر نہیں ہوتے تو بڑا سوالیہ نشان اپنی جگہ ہی رہے گا کہ پھر منتخب نمائندوں سے روایتی وزیر نہیں اور ایک معاونِ خصوصی ہی۔ چونکہ فیصل سلطان قریبی ہیں چنانچہ منتخب نمائندگان کے حقوق پر ڈاکہ کی بات کرنے والے ببانگِ دُہل کچھ نہ کہہ پائیں گے تاہم سرگوشیوں کی بازگشت تو بہرحال ہوگی۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا بھی خان صاحب ہی کی پسند تھے جو نہ چل سکے۔ ان سے قلم دان واپس لینے کی درخواست کووڈ 19کے ابتدائی دنوں ہی میں راقم نے بھی کی تھی مگر اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ منتخب نمائندوں ہی سے بندہ لائیں تو بہتر ہوگا لیکن ظفر مرزا کے قریبی حلقوں کا یہ بھی خیال تھا کہ مرزا صاحب کے ہٹنے کی وجہ وہ بیوروکریسی تھی جس کو کم کرکے وہ وزارت میں ٹیکنوکریٹس لا رہے تھے جبکہ نیا آرگینوگرام کیبنٹ سے منظور کرا بھی چکے تھے، کرپشن اور تساہل محض پروپیگنڈہ تھا۔ اڑتی ہوئی خبر بزمِ ناز سے یہ بھی ملی ہے کہ آنے والے دنوں میں وفاق کے چار بڑے اسپتالوں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ لگے ہاتھوں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، فارمیسی کونسل آف پاکستان، نرسنگ کونسل اور پی ایم ڈی سی کی بھی قسمت بدل دیں کہ تبدیلی نہ سہی تبدیلی کے آثار تو نظر آجائیں۔ اگر سلطانی تجربہ کامیاب ہو جائے تو لگے ہاتھوں ایچ ای سی کا چیئرمین بھی نمل یونیورسٹی کے سربراہ کو لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تعلیم اور صحت میں انقلاب آگیا تو تحریک انصاف اور انصاف کی فراوانی خودبخود ہوجائے گی، ورنہ۔۔۔

قومی سطح پر بڑے فیصلے یا بڑی پیش رفتیں اسی وقت ممکن ہوتی ہیں جب قوم کو ساتھ لے کر چلیں، قوم کو ساتھ لے کر چلنے کا مطلب ہے مکالمے کے دریچے کھولیں اور مثبت اقدامات کی شروعات کیلئے اپوزیشن کو جائز احترام دیں، ہر معاملے یا مکالمے کو پاک بھارت جنگ ہی نہ بنالیا جائے۔ بلاشبہ یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں، اور بلا مبالغہ ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں! سیاسیات و سماجیات کو سمجھنے والے جانتے ہیں حکومتیں اور اپوزیشن عام طورپر ادل بدل کا قصہ اور میوزیکل چیئر گیم ہی تو ہے۔ پھر، آدھا حکومتی دورانیہ تو تمام ہوا باقی میں ہی کچھ کرم فرمائی ہوجائے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ گر کوئی یہ سمجھے کہ نیب ہی کامیابی کا ٹول ہے، تو اس کی مرضی ورنہ عدالتیں، نظام اور ایجنسیاں اور بھی ہیں۔ اگر وہ ناکام ہیں تو پھر اس وکٹ پر نیب کامیاب کیسے؟

بات زیادہ پرانی نہیں اور ممکن ہے تاریخ اس بات کو پرانی ہونے بھی نہ دے۔ آصف علی زرداری کو جہاں میڈیا ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتا رہا وہاں میڈیا کو اسے مردِحُر بھی کہنا پڑا اور کہا بھی اس حلقے نے جو ہمیشہ مسلم لیگ کے ساتھ اور پیپلزپارٹی کے خلاف کھڑا پایا گیا۔ وہ شریف برادران جنہوں نے زرداری کو 10پرسنٹ کہا اورکبھی سڑکوں پر گھسیٹنے کے چیلنج دیے وہی شریف برادران 18ویں ترمیم میں زرداری کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ پھر وہ شریف برادران جو محترمہ بےنظیر بھٹو کی کردار کشی کرتے تھے وہ دھرنے میں اقتدار بچانے کیلئے پیپلزپارٹی جیسی اپوزیشن کے محتاج تھے۔ یہ تاریخ ہی کا نہیں تحریک کا بھی سبق ہے۔ دور کیا جانا، از راہِ کرم حکومتی صفوں ہی میں دیکھ لیجئے کل تک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو امام ماننے والے آج آدھے آپ کی امامت میں رکوع و سجود میں ہیں، یہ کل کس کی پرستش کرنے والے ہیں ابھی یہ انہیں بھی نہیں معلوم مگر یہ سیاسی بنجارے بھی ایک حقیقت ہیں اور جمہوریت کا ایک ’’حسن‘‘ بھی۔

بہرحال کہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنی صدارت کے دوران جو اختیارات اپنے ایوانِ صدر سے اپنے ہاتھوں رخصت کرکے اسمبلی فلور کے سپرد کئے اور این ایف سی ایوارڈ جیسے مشکل کام کے سنگ سنگ ایران اور چین سے تعلقات کو امریکی طنطنے کی موجودگی میں قوت سے ہمکنار کیا یہ پروپیگنڈے اور بدنامیوں کے باوجود ناقابلِ فراموش ہیں جسے ہر چشمِ بینا دیکھتی اور سمجھتی ہے۔ آج ہمارا سفارتی معاملہ کمزور ہے جسے تدبر کے وٹامنز کمپلیکس انجکشن کی ضرورت ہے، سی پیک کی نمایاں بنیاد زرداری صاحب نے رکھی جو زنجیری عمل بن کر آج قوم کیلئے عظیم پروڈکٹ ہے۔ یہ سب اس لئے نتیجہ خیز ہے کہ پیپلزپارٹی و نون لیگ و تحریک انصاف اس کو ایسے ہی لے کر آگے چلے جیسے بھٹو کے جوہری پروگرام کو ضیاءالحق ،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف زنجیری عمل ہی کی طرح لے کر آگے چلے اور ہم جوہری توانائی کے حامل ہوگئے۔

محترم وزیراعظم! آج حقیقی جمہوری پاکستان اور انسانی حقوق کے حصول والے پاکستان کیلئے بھی ’’انتقامی و سیاسی‘‘ عمل کی کم اور زنجیری عمل کی زیادہ ضرورت ہے۔ آپ کے پاس اقتدار بھی ہے اور ہردلعزیزی کے علاوہ دانشمندی بھی۔ پس پہلے تو ان مشیران اور وزراء کو چلتا کریں جن کی کبھی آنکھیں تو کبھی چہرہ نہیں ملتا۔ آپ کے پاس صوابدیدی اختیارات سے لیکر جمہوری کمالات بھی ہیں، ہم تو آپ سے بہتر عدالتی و ضلعی نظام کی بھی توقع کئے ہوئے ہیں اور تعلیمی انقلاب کی بھی مگر حالات توقع کے برعکس ہیں، جی! ازراہِ کرم آگے دیکھئے، اسمبلی فلور اور اپنی پارٹی و اپنی ٹیم میں سے کچھ دریافتوں کو رواج بخشیں اور ناکارہ مال اور مال و زر کے پجاریوں کو تلف کریں اور پلیز سچ کے ہتھیار سے بےشک جان لے لیجئے مگر جھوٹ کے تیرکمان نیب اور دیگر اداروں اور وزارتوں سے چھین کر توڑ ڈالئے، ان سے زخمی نہ کیجئے۔ نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب نئی حکمتِ عملی اپنائیں گے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین