• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب پرویز مشرف کو سلامی دے کر رخصت کیا جارہا تھا۔ میرا ماتھا وہیں ٹھنکا تھا کہ ضرور کوئی سودے بازی ہے کہ آئین توڑنے والے شخص کو اتنی عزت دی جارہی ہے۔ نصرت جاوید بھی میرے ساتھ متفق تھے۔ مجھے اتنا غصہ تھا کہ رات بھی نہیں گزاری اور ایک نظم لکھ دی۔ اس کا انطباق کیسے ہوا ہے، آپ بھی پڑھ لیجئے۔
کیا وہ واقعی چلا گیا
بلائیں اپنے پنجوں کے نشان چھوڑ جاتی ہیں
وہ بھی تو ایک بلا تھا
اس کی نشانیاں وہ بولتی بلائیں ہیں
جو بد روحوں کی طرح
اناپ شناپ بولتی جارہی ہیں
شیطان تو ان سب سے بہتر مخلوق ہے
کیا وہ واقعی چلا گیا ہے
ابھی تک ہر طرف اس کے پالے ہوئے
کھرونچے مارتے اور غراتے بلّے ہیں
گیدڑ بھبھکیاں دیتے گر گے ہیں
ہر خندق میں چھپے مغبچے ہیں
امریکیوں کو بلیک میل کرنے والے
لمبے لمبے ہاتھ ہیں
کیا مذاق ہے!
ایک بلیک میلر، دوسرے کو بلیک میل کررہا ہے
کیا وہ واقعی چلا گیا ہے!
مگر کہاں کہ آمریت کو تو
نہ مسولینی کے زمانے میں
اور نہ ہٹلر کے زمانے میں
گارڈ آف آنر پیش کیا گیا تھا
پنوشے کو بھی اس التزام سے
رخصت نہیں کیا گیا تھا
کیا یہ اس کی رخصتی تھی!
کیا یہ اعلان تھا کہ حکومت کس کی ہے
ابھی تک کس کے ہاتھ میں
زنجیر کھینچنے کی طاقت ہے
ابھی تک لوہا گرم ہے
مغرب سے آنے والے بوٹ
ہمارے پیروں میں فٹ کئے جارہے ہیں
چڑیلیں اور بلائیں
پاکستانی فرینکو کے کندھوں پر چڑھی
بلبلا رہی ہیں
وہ زنجیریں ہلا ہلاکر کہہ رہی ہیں
وہ نہیں گیا، وہ نہیں گیا
وہ ہمارا گرو ہے
وہ نہیں جائے گا
وہ پھر آئے گا
وہ شیطان سے بڑی مخلوق ہے!
اس کو فوج نے بھی منع کیا تھا مگر کچھ بیرونی ممالک میں پاکستان پہ لیکچر دینے اور بھولے پاکستانی جو غیرممالک میں قیام پذیر ہیں اس کی باتوں میں آکر کہہ رہے تھے کہ ہم اس کی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اب سوچ رہے ہیں کہ ہم کن باتوں میں آگئے تھے۔ آہستہ آہستہ قبول کررہے ہیں کہ ڈرون حملوں کی بھی اجازت میں نے دی تھی اور کشمیر میں دراندازی کا بھی حوصلہ میں نے ہی کیا تھا۔ لوگ غلطیاں کرکے بھول جاتے ہیں کہ اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیسے مزے کئے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کی قیمت بھی وصول کی اور لندن کے علاوہ دبئی میں گھر اور دفتر بھی بنایا۔ جب پوچھا گیا کہ آپ کے پاس سرمایہ کتنا ہے تو تڑاخ سے جواب دیا”یہ تو میں آپ کو نہیں بتاؤں گا“۔
مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے ظفر اقبال اور حسن نثار بہت یاد آتے رہے۔ ظفر نے تو منیر نیازی کا مصرعہ پرویز مشرف کو یاد دلایا ہے کہ ”عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ اور حسن نثار تو ہر روز کبھی اپنا تازہ یا کبھی پرانا شعر سنا کر بار بار تنبیہ کرتا تھا کہ اپنے آپے میں رہو مگر جب آنکھوں پہ چربی چھا جائے تو یہ یاد نہیں رہتا کہ امریکہ نے بھلا کس کے ساتھ دوستی نبھائی۔ کیا آپ کو شہنشاہ ایران بھول گئے۔ صدام حسین اور حسنی مبارک یاد نہیں رہے۔ اور تو اور بقول محسن حامد، آخر ضیاء الحق کو مروانے والا اور کون تھا۔ ہمیں بھی تو 1971ء میں باور کرایا گیا تھا کہ بحری بیڑہ پاکستان پہنچنے والا ہے۔ کچھ نہیں تو سانپ سیڑھی والا گیم یاد رکھنا تھا کہ کس طرح 99پہ پہنچ کے دو نمبر پر آجاتے ہیں۔ مجھے وہ ادیب بھی یاد آرہے ہیں جو بوریاں بھر بھر کے پرویزمشرف کو دینے کے لئے کتابیں لایا کرتے تھے۔ اب وہ کیمیا نسخے کہاں ہوں گے۔ وہ بھی یاد آرہے ہیں جو ان کی اماں کو اخبار پڑھ کر سنانے کے لئے جاتے تھے۔ اب کہاں وہ لالہ و گل۔ ویسے آج کے فوج کے سربراہ کے گھر میں لائبریری بنانے کی ذمہ داری بھی ہمارے عزیز دوست نے لے رکھا تھی۔ چلئے یوں پڑھنے لکھنے کا سامان کرنے والے اب نئے خواب نما لوگوں کو تلاش کرلیں گے اور نہیں ڈریں گے ان ٹیلیفون کالز سے جو روز آپ کو عاقبت سے ڈراتے ہیں جو روز ہاتھ میں تسبیح لے کر وعدہ لینا چاہتے ہیں کہ ہم ووٹ کس کو دیں!
تازہ ترین