• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد بہت خوبصورت اور پُرسکون شہر ہے۔ مجھے یہ شہر پاکستان کے سارے شہروں میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ کہتے ہیں کہ صدر ایوب کو جب کراچی سے دارالحکومت کسی اور جگہ منتقل کرنے کا خیال آیا تو اس نے مارگلہ کی پہاڑیوں کے خوبصورت دامن میں موجود اس جگہ کو اس لئے بھی زیادہ پسند کیا کہ ان پہاڑیوں کے اس پار اس کا اپنا گھر تھا۔ پتہ نہیں یہ بات سچ ہے یا نہیں لیکن بہرحال ایک خوبصورت نیا شہر آباد کرنے کیلئے یہ ایک نہایت موزو ں جگہ تھی۔ اسلام آباد پاکستان کا واحد بڑا شہر ہے جسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا۔ زیرو پوائنٹ سے چہار سمت اس شہر کو پھیلا دیا گیا لیکن شہر اسلام آباد کو آباد کرنے والے منصوبہ سازوں سے ایک بہت ہی معصوم سے غلطی ہو گئی۔ وہ بھول ہی گئے کہ اس شہر میں وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ کے علاوہ ایک ضلعی انتظامیہ بھی ہو گی اور اس کو دفاتر کی ضرورت بھی پڑے گی۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اس خوبصورت دارالحکومت میں عدالتِ عظمیٰ کے علاوہ ایک ضلع کچہری بھی ہو گی اور اس کے ججوں اور وکیلوں کو بھی بیٹھنے کیلئے دفاتر کی ضرورت ہوگی۔ خبر نہیں کب اور کیسے کسی کو اس غلطی کا احساس ہوا اور اسلام آباد کے ایک کمرشل علاقے ایف ایٹ مرکز میں انتظامیہ اور عدالتوں کو ٹھونس دیا گیا۔ میں تو جب سے اسلام آباد میں آ کر آباد ہوا ہوں ، ضلع کچہری کو یہیں دیکھا ہے۔آپ کو شاید حیرت ہو کہ اسلام آباد کی ضلع کچہری کی حالت پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے بدتر ہے اور کیوں نہ ہو آخر ایک ”مثالی“ ملک اور قوم کے دارالحکومت کی ضلع کچہری جو ٹھہری۔ یہاں کے ایک بڑے مشہور وکیل کا قول محمد بشیر کو بڑا پسند ہے، کہتے ہیں ”یہ کوئی عدالتیں تھوڑی ہیں ، یہ تو ہٹیاں(دکانیں) ہیں جہاں سے گویا ہم روزانہ سودا لینے جاتے ہیں“۔ ایک دوسرے وکیل صاحب کا کہنا ہے”یہ عدالتیں نہیں دڑبے ہیں اور ان میں جج یا وکیل نہیں بیٹھتے بلکہ یہاں برائلریں رہتی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ برائلروں کیلئے ایک خاص درجہ حرارت کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن یہاں ماحول کو سو فیصد قدرتی رکھا جاتا ہے“۔
میرا اور محمد بشیر کا ساتھ کوئی دو سال پُرانا ہے۔ ہمارا ساتھ ایک بڑے ڈرامائی انداز میں شروع ہوا۔ جب میں نے ضلع کچہری اسلام آباد میں وکالت کا آغاز کیا تو نہ کوئی منشی میرے ساتھ کام کرنے کو تیار تھا اور نہ کوئی وکیل محمد بشیر کو منشی رکھنے پر آمادہ۔ قدرت نے ہمیں ملا دیا اور ہم دونوں دفتر سجا کر بیٹھ گئے۔ کوئی دو مہینے تک ہمارے پاس ایک بھی کیس نہیں آیا اور ہم روزانہ ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر واپس چلے جاتے۔ اب قدرت آہستہ آہستہ مہربان ہو رہی ہے اور ہم دونوں اپنا اپنا رزق لیکر آتے ہیں۔ محمد بشیر مارگلہ کی پہاڑیوں کے اس پار صدر ایوب کے شہر کا باسی ہے، میٹرک پاس ہے ، انگریز ی کے چند ایک زیادہ استعمال ہونے والے لفظ پڑھ لیتاہے، باقی تعلیم اس کے ماسٹر صاحب کی قابلیت کی نظر ہو گئی۔ کہتا ہے کہ ماسٹر صاحب کو خود کچھ نہیں آتا تھا، کہا کرتے تھے کہ تم لوگ کھیلو کودو، امتحان میں خود پرچہ حل کرا دوں گا۔ گھسٹتے گھسٹتے میٹرک کر لیا اور رزق کی تلاش میں اسلام آباد کچہری تک پہنچ گیا، وہیں میری اور اس کی ملاقات ہو گئی۔
یہاں عدالتیں آٹھ بجے کام شروع کر دیتی ہیں اور محمد بشیر پونے آٹھ بجے تک دفتر پہنچ جاتا ہے۔ چند روز پہلے (19/اپریل کو) وہ حسب سابق پونے آٹھ بجے دفتر پہنچ گیا۔ کوئی آٹھ بجنے سے پانچ منٹ پہلے وہ مجسٹریٹ کی عدالت سے ایک کیس کا ریکارڈ دیکھنے جا رہا تھا کہ اسے تھوڑی سے غیر معمولی صورتحال محسوس ہوئی۔ تھانہ سیکریٹریٹ کے مجسٹریٹ عباس شاہ تیز تیز قدموں کے ساتھ عدالت میں داخل ہوئے۔ پیچھے پیچھے بہت سے پولیس والوں کے درمیان اسے ایک ایسا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا۔”یہ تو پرویز مشرف ہے“ وہ دل ہی دل میں چلّایا ۔کچہری میں ابھی زیادہ رش نہیں تھا، جیسے ہی پرویز مشرف ،عباس شاہ صاحب کی عدالت میں داخل ہوا، بشیر بھی ساتھ ہی اندر ہو لیا پھر اس دڑبہ نما عدالت میں کوئی بیس پچیس منٹ تک پرویز مشرف اور محمد بشیر ایک ساتھ موجود رہے۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وکیلوں کو پرویز مشرف کی کچہری میں موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی ۔ پانچ دس منٹ میں ہی چند نوجوان وکلاء کی عدالت کے باہر رینجر زکے ساتھ تکرار کی آواز بلند ہوئی جو انہیں عدالت میں آنے سے روک رہے تھے کیونکہ اندر” مغلِ اعظم“ بحیثیت ملزم موجود تھے۔ کچہری میں وکیلوں کو کھلی عدالت میں جانے سے روکنا بلاجواز تھا اور وکلاء پر اس طرح کی دھونس کم ازکم کچہری میں نہیں چلائی جا سکتی، خیر وہ وکلاء اندر کمرہٴ عدالت میں داخل ہو گئے اور ملزم پرویز مشرف کو بغیر ہتھکڑی پیش کرنے پر احتجاج کرنے لگے۔ بشیر کے مطابق پرویز مشرف کافی گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ اس وقت عدالت میں چند ایک پولیس والوں کے علاوہ باقی وکلاء تھے یا پرویز مشرف۔ خیر وکلاء نے ضبط کا مظاہرہ کیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ورنہ پرویز مشرف کی فرعونیت اور ضد کی وجہ سے پاکستان بھر کے وکلاء کوئی دوسال تک بے روزگار رہے تھے۔ وکلاء تحریک کے دوران عدالتوں میں تالے تھے، گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور وکلاء کی قسمت میں یا سڑکیں لکھی تھیں یا لاٹھیاں یا پھر جیلیں ۔ اس ایک شخص نے پاکستان بھر کے وکلاء پر جو مظالم ڈھائے تھے آج اس کے حساب کا وقت تھا۔ کمرہٴ عدالت کے باہر وکلاء کی ایک ٹولی کے نعروں کی آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ”زندہ ہیں وکلاء ،زندہ ہیں“، ”مشرف کو،…دو“اور مجسٹریٹ کی عدالت کے اندر اپنے وقت کا ڈکٹیٹر بے بسی کی تصویر بنا یہ سب کچھ سہہ رہا تھا۔ میں کوئی سوا آٹھ بجے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ پرویز مشرف کو ریمانڈ کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ پہلے خیال تو ”دھماکے“ کا آیا، تھوڑی دیر دفتر میں رکا لیکن پھر رہا نہ گیا اور میں بھی عدالت کی طرف چلا گیا۔ اس وقت تک پرویز مشرف کو اس کی گاڑی تک پہنچا دیا گیا تھا، جس کے گرد رینجرز گھیرا ڈال کے کھڑے تھے اور وہیں نوجوان وکلاء کا ایک گروہ اس کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ میں نے بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالا اور ایک ڈکٹیٹر اور وطن فروش کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پرویز مشرف کو کوئی آدھا گھنٹہ اسی حالت میں رکھا گیا، وہاں بہت سے لوگ جمع تھے عام لوگ،اور وہاں سب کیلئے سامان ِ عبرت موجود تھا۔ پھر اخباری اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف کو چک شہزاد والے فارم ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔ فارم ہاؤس؟؟؟ایک ملزم جسے عدالت نے دو دن کے راہداری ریمانڈ پر حوالہ پولیس کیا تھا، پولیس اسے اس کے اپنے ہی فارم ہاؤس میں لے گئی یااللہ اس ملک میں اور کیا کیا ہونا باقی ہے!!
واپس دفتر آیا تو دل سہما سہما سا تھا، ایک عجیب سی اداسی تھی، مجھے پرویز مشرف کی حالت پر بہت دکھ ہو رہاتھا۔ میرا قدرت کے انصاف پر یقین پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا تھا۔ نیک کاموں کے اچھے نتائج اور برے کاموں کے برے انجام والی کہاوتوں اور کہانیوں کی حقانیت میرے اوپر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ آشکار ہو چکی تھی۔ میرے ذہن میں 1999ء سے لیکر2007ء تک کے مشرف کے جرائم کا منظر نامہ گھوم رہا تھا۔ میں سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کاش اس شخص نے یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا۔ کاش اس وقت اس کا کوئی بڑا ، اس کا کوئی خیر خواہ غلط راستے پر چلنے والے اس کے قدم روک دیتا، جیسے بچپن میں ننگے پاؤں گرمی کی دھوپ میں جانے والے کسی بچے کی ماں اسے کان سے پکڑ کر واپس لے آتی ہے ۔کاش!! کاش!!میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ محمد بشیر دفتر میں داخل ہوا۔میرے استفسار کرنے پر کہنے لگا” سر جی ، اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی، اس کو تو موت سے پہلے ہی موت نے آلیا ہے“۔
پسِ تحریر: پرویز مشرف کو ان کے جرائم کی ایک لمبی فہرست کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن صرف اور صرف عدالتوں میں ثابت ہونے پر۔ میرے خیال میں عدالتوں میں پیشی کے دوران ہی ان کی زندگی کو شدید ترین خطرہ لا حق رہے گا، اس روز ان کی سیکورٹی کے اقدامات نہایت غیر تسلی بخش تھے۔ صرف زیادہ تعداد میں رینجرز تعینات کرنے سے سیکورٹی بہتر نہیں ہو جاتی۔ متعلقہ اداروں کو اس بار ے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔
تازہ ترین