ایمان صغیر
ماہرین فلکیات سورج پر تحقیقات کرکے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ مستقبل میں یہ کیسا نظر آئے گا ،حال ہی میں سورج کی انتہائی قریب سے تصویریں حاصل کی گئیں ہیں یہ اب تک کی سب سے قریب سے کھینچی گئیں تصویریں ہیں جو سورج کی سطح سے صرف سات کروڑ ستر لاکھ کلو میٹر کے فاصلے سے لی گئیں ہیں یہ تصاویر یورپی اسپیس ایجنسی کے سولر آربٹر ر نے بھیجی ہیں جیسے رواںسال کے شروع میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔
سولر نامی اس آربٹر نے جو تازہ معلومات فراہم کی ہیں ،ان میں سورج کی شعائوں کی تصاویر بھی شامل ہیں جنہیں کیمپ فائر کہا جا تا ہے ۔ یہ شعائیں سورج کے مقابلے میں لاکھوں گنا چھوٹی ہیں لیکن انہیں زمین سے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ماہرین کا خیا ل ہے کہ چھوٹی سمجھی جانے والی یہ شعائیں سورج کے گرد موجود گرم ماحول کی ذمہ دار ہوسکتی ہیں جو کہ اس کی سطح سے کہیں زیادہ گرم ہوتا ہے۔
اس پروجیکٹ کے سائنسداں ڈینیئل ملر کا کہنا ہے کہ سورج کی سطح اتنی زیادہ گرم نہیں ہوتی اور اس کے باہرمدار کا درجہ ٔ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری تک ہوتا ہے ۔امریکی ماہر طبیعیات یوجین پارکر کا یہ نظر یہ ہے کہ اگر سورج کے ارد گرد بہت زیادہ تعداد میں چھوٹی شعائیں موجود ہیں تو یہ کورونا وائرس کو شدید حدتک گرم رکھتی ہیں ۔رائل آبزرویٹری کے ماہر ڈیوڈ بر جمینز ایکسٹر یم الٹروائلٹ ایمیجر پر کام کرنے والی ٹیم کے سر براہ ہیں۔
ایکسٹریم الٹراوائلٹ ایمیجر کئی خاص ٹیلسکوپس کا مجموعہ ہوتا ہے اور اس کا کام سورج کے گرد موجود کورونا کے ڈھانچے کی تصاویر لینا ہوتا ہے۔ڈیوڈ برجمینز کے مطابق ان شعاؤں کا کردار جو بھی ہو، لیکن ان کا سائز بہت چھوٹا ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ یہ اتنے عرصے تک سائنسدانوں کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں۔ان میں سب سے چھوٹی شعائیں دو پکسل کے جتنی ہوتی ہیں۔
ایک پکسل کی حد چار سو کلومیٹر تک کی ہوتی ہے۔اسےا سپیشل ریزولوشن کہا جاتا ہے ۔ ان میں اور چھوٹے سائز بھی ہوسکتے ہیں۔ یورپی ا سپیسس ایجنسی نےرواں سال فروری کے مہینے میں جو سیٹلائٹ خلا میں بھیجا تھا اسے امریکا کے کیپ کینیورل اسٹیشن سے ایک راکٹ کے ذریعے روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیٹلائٹ کا کام سورج کے انوکھے برتاؤ کے بارے میں چیزیں معلوم کرنا ہے۔
سورج سے نکلنے والی شعائیں اور اس ستارے کا برتاؤ زمین پر صرف گرمی اور روشنی پہنچانے تک محدود نہیں ہے۔سورج کی ان شعاؤں سے ریڈیو مواصلاتی نظام میں خلل پڑتا ہے اور ستارے کے مقناطیسی مدار سے سیٹیلائٹ میں موجود بجلی سے چلنے والے آلات بند ہوجاتے ہیں۔سولو آربٹر کی مدد سے کی گئی تحقیق سے سائنسدانوں کو اس خلل کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔
برطانوی اسپیس ایجنسی کی سربراہ کیرولن ہارپر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہمیں اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا کتنا ضروری ہے اور سیٹلائٹ موصلاتی نظام اس کے لیے لازمی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 'یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے سورج کے برتاؤ کو بہتر طریقے سے سمجھنا ضروری ہے ،تاکہ ہم اس کے موسم کی پیش گوئی کرسکیں۔
اس سولر آربٹرر نے سورج کے گرد کئی چکر کاٹے ہیں اور یہ آہستہ آہستہ اس کے اور قریب ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ اس میں اور سورج میں صرف چار کروڑ تیس لاکھ کلومیٹر سے بھی کم کا فاصلہ رہ جائے گا۔واضح رہے کہ ہماری زمین سورج سے تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ آربٹر سورج کے سب سے نزدیکی سیارے عطارد ( مرکری) کے مدار میں بھی داخل ہوجائے گا۔فی الحال جو تصویر حاصل کی گئی ہے وہ سیارہ زہرہ (وینس ) سے لی گئی ہے ۔اس تحقیق میں استعمال کیے جانے والے چھ سینسسنگ انسٹرومنٹ کی خاصیت کو بڑ ھاتے ہیں۔
اس سلسلے میں سائنس ایند ایکسپلوریشن کے مشیرمارک مکو گرئین کاکہنا ہے کہ یہ سولر آربٹر سورج کے نزدیک صرف اس کی تصاویر حاصل کرنے نہیں جارہا بلکہ یہ سولر ونڈ کے اُس حصے میں جا ئے گا جہاں اسے ماحول زیادہ تنگ نہیں کرے گا ۔یہ وہاں مقناطیسی مدار اور خلیوں پر قریب جاکر تحقیق کرے گا ،علاوہ ازیں یہ سورج کی سطح کے بارے میں ڈیٹا بھی فوری معلوم کرکے واپس بھیجے گا ،تا کہ دونوں معلومات کو جوڑ کر اس سے بہتر طر یقے سے سمجھا جا سکے۔ اور یہ کام کوئی دوسرا مشن یا ٹیلی ا سکوپ نہیں کرسکتا۔
ماہرین کے مطابق مشن جیسے جیسے آگے بڑھے گا ویسے زہرہ سیارے کی مدد سے یہ آربٹر خود کو سیاروں کے علاقے سے نکال لے گا ،تا کہ یہ ایسے مقام تک پہنچ سکے جہاں سے سورج کے قطبی حصوں کو بہتر انداز میں دیکھاجاسکے ۔جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک سمیع سولنگی نے ان حصو ں کو’’ ٹیرا انکاگنیٹا ‘‘کا نام دیا ہے، یعنی وہ علاقے جو نامعلوم ہیں ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ سورج کی قطب سے ممکن ہے کہ ہم سورج کی مقنا طیسی طاقت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سورج کے رویے کا دارومدار مقناطیسی مدار پر ہے ۔لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ مقناطیسی مدار کیسے تخلیق ہوتا ہے ۔ ہمارا یہ اندازہ ہے کہ یہ ڈائنیمو ہے جو سورج کے اندر سے ایسا کررہا ہے۔بالکل اسی طرح جیسا کہ زمین کے اندر ڈائنیمو ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں پتا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ پولز کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکی اسپیس ایجنسی ناسا کے ساتھ مل کر یہ کام کررہی ہے۔وہاں پر سولر آربٹر پراجیکٹ پر کام کرنے والی سائنسدان ہولی گلبرٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں جس طرح کی معلومات پہلی تصاویر سے ملی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتاہےکہ سورج کے قریب جاکر ہم کتنی معلومات حاصل کرسکتے ہیں ۔