رضوان بن علاء الدین
احمد ندیم قاسمی ان افسانہ نگاروں میں نمایاں ہیں ،جنھوں نے دیہی معاشرت کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بنایا اور دیہی کرداروں کو مرکزیت عطا کرکے ان کے جذبات، احساسات اور زندگی کے تضادات کی بہترین عکاسی کی۔ انھوں نے اپنے افسانوں کی اساس گاؤں کے پس منظر میں انسانی زندگی کے ان المیوں پر رکھی ، جن کا تعلق معاشی ناہمواریوں سے ہے۔
ان کے افسانوی کردار غریب، سادہ لوح، ملنسار، خوش اخلاق، مہمان نواز اور معصوم ہیں، انھوں نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر اس ماحول کی عکاسی کی ہے جس کی انھیں پوری واقفیت ہے اور جس سے ان کا براہ راست تعلق ہے۔
افسانہ نگار اس فضا میں سانس لینے والے زمینداروں، کسانوں، کھیت، کھلیانوں، ان کے کنوؤں اور چشموں اور جانوروں تک سے ایسی دلچسپی اور ہمدردی رکھتا ہے جو پریم چند کے علاوہ کسی اور کے یہاں نظر نہیں آتی۔ یہی ان افسانوں کی کامیابی وکامرانی کا راز ہے اور حقیقت سے قریب تر ہونا ان کے گہرے مشاہدے کی دلیل ہے۔ ان کے افسانوں میں دیہات کے معصوم اور سادہ لوح لوگ اپنی غیر مصنوعی حرکات وسکنات کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں اُپلے تھوپنے والی خواتین، کہیں کہیں بھیڑ بکریاں چرانے والے نوجوان بھی ہیں۔ دیہاتی افراد کی محبت، رسم ورواج، قتل وغارت، توہم پرستی، تاریک اورکریہہ پہلوؤں کو بے نقاب کرنا ان کا مقصد حیات تھا۔ ’طلوع وغروب‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں نے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے آہوں کے دھوئیں اٹھتے دیکھے ہیں۔ میں نے موت کی چڑیلوں کو تیرہ نصیب مریضوں کے سرہانے، دانت کچکچاتے اور انگلیاں چٹخاتے دیکھا ہے۔ میں نے زندگی کی نعش کو گلتے سڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے گرد آلود پلکوں میں اٹکے ہوئے دھندلے آنسوؤں کو۔۔۔غریبوں کی روتی اور بلکتی ہوئی اولاد کو نہایت قریب سے دیکھا ہے، جس کی دھجیوں سے بدبو آتی ہے۔‘‘
احمد ندیم قاسمی کے افسانے دیہاتی زندگی کے ہر پہلو کو بے نقاب کرتے ہوئے صداقت پر مبنی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ غربت، بھوک، توہم پرستی، بیماری، ناخواندگی، بے روزگاری، نچلے طبقوں کا استحصال، امیروں کی عیاری، آسودہ اور باوسائل افراد کا جارحانہ اور جابرانہ رویہ اجڑے گھروں اور ان کے باسیوں کی مفلوک الحالی اور خانہ ویرانی یہ تمام مسائل سب ہی دیہی باشندوں کے ہیں۔ان کا فطری میلان دیہی زندگی کی طرف زیادہ تھا۔ انھوں نے دیہاتی بود وباش کو اپنی تحریروں میں پیش کرکے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نقاب کشائی کی ہے۔ مقامی طرز معاشرت کی عکاسی اتنے دلکش اور دلچسپ انداز سے کی ہے کہ مختلف ادبی نظریات سے تعلق رکھنے والے نقاد بھی ان کی تعریف و توصیف بیان کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:
’’قاسمی صاحب کی ابتدائی کہانیاں اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہمارے شعور میں روشنیاں سی بکھیرتی ہیں۔ دیہات کی پگڈنڈیوں، ٹیلوں پر چاند کا غبار، ریت اور بگولے، اونٹ اور ساربان ، اس ماحول میں انسانی معاشرت کے تضادات، جوانی کے جذبے، محبتوں کے کھیل، پھر ان رومانی فضاؤں پر اچانک مایوسیوں کی یلغار، جنگ اور طبقاتی تضاد کے یہ تمام عناصر جناب قاسمی صاحب کی جذباتی اور شاعرانہ نثر میں ڈھل کر جی کو لبھاتے تھے۔ قاسمی صاحب کے ہاں دیہات کا صرف رومانی روپ نہیں تھا۔ وہ اس فردوس میں جلتے ہوئے گھر دیکھتے تھے۔ ان کی واقعیت نگاری اور قوت مشاہدہ اثر انگیز تھی۔ انھوں نے پنجاب کے ایک خاص علاقائی ماحول کو زبان دی۔ اس علاقے کے کرداروں کو اردو ادب کا حصہ بنایا۔ پریم چند سے شروع ہونے والی دیہات نگاری کو نئی نہج پر ڈالا۔ ان کی اس حیثیت سے میرے جیسے لوگوں کو بھی جن کی ترجیحات مختلف ہیں، انکار نہیں۔‘‘
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہی زندگی کی تلخیاں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہیں۔ لیکن شہر میں سکونت کے لحاظ سے جن حالات اور واقعات نے انھیں متاثر کیا ہے ،اس کا بھی عکس ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ ان کے افسانوں میں اکثر و بیشتر شہر کی عورت بے وفا اور خلوص ومحبت سے عاری ہے۔ ان کے افسانوں میں شہری زندگی پر مشتمل افسانے غربت، فریب، جھوٹی شان و شوکت، ریاکاری اور تصنع سے بھرپور ہیں۔ انہو ں نے اپنے افسانوں میں شہروں کی مصنوعی زندگی، بے وفائی، خود غرضی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکیا۔
وہ شہری کہانیوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’شہری متوسط زندگی کے بارے میں بھی میں نے کہانیاں لکھیں اور بعض اونچے طبقے کے دوست تھے تو ان کے ساتھ دو تین بار یوں کہیے کہ جو نام نہاد اعلیٰ سطح کی سوسائٹی تھی، اس میں بھی شرکت کی۔ اس کا عکس میرے افسانوں میں موجود ہے۔‘‘
افسانہ ’کفارہ‘ کا پیرو اپنا آبائی مکان فروخت کرکے سفید بیلوں کی جوڑی اور ایک ہل خریدتا ہے۔ اور یہ کوشش کرتاہے کہ اپنی بنجر زمین کو زیر کاشت لائیں۔ لیکن جیسے ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ پیرو اپنی زمین پر ہل چلا رہا ہے۔ ہل چلانے کی پاداش میں پیرو کو پولیس بری طرح لہو لہان کردیتی ہے۔ اور دونوں بیل بھی ضبط کر لیتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’اصول کی بات‘‘ کا عبد اﷲ کسی جرم میں اپنے گھر اور کھیت سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ تو وہ کچھ دنوں کے بعد اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ جاگیردار کی خدمت میں حاضر ہوتاہے۔
جب عبد اﷲ کو بطور مزارع رکھنے کی امید نظر آتی ہے تو وہ سکون کا سانس لیتا ہے۔ لیکن یہ ہو نہیں پاتا ۔اس افسانے میں جاگیردار ایک غریب اور تنگ دست انسان کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔ جاگیردار کی بے دخلی محکومی اور عیاریوں کے باوجود عبد اﷲ اپنی بیوی اور بیٹی کی عزت بچانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ جاگیردار اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر اس کی سزا کھیت کھلیان کی تباہی و بربادی یا علاقے سے بے دخل کرنے کی صورت میں دیتا ہے۔
سماجی حقیقت نگاری، غریبوں کے مسائل اور مشکلات، ظلم و نا انصافی، احساس ذلت، عزت نفس کو بری طرح جھنجھوڑنا اور مجروح کرنا جاگیردار اور با وسائل طبقے کا ظلم وجبر وغیرہ ان کے افسانوں میں جا بہ جا موجود ہے۔ زمیندار بلند و بااثر ہے ،وہیں مزارع کو کیڑوں اورمکوڑوں اور جانوروں کی طرح مسلا جاتاہے اور معاشرے میں اس کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی ہے۔
افسانہ’’ بے گناہ‘‘ کا رحمان یتیم اور مسکین بے روزگار نوجوان تھا، جیسے ہی شفقت پدری سے محروم ہوا۔ ذیل دار کے ظلم وستم نے مرتے دم تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ غریب اور مفلوک الحال رحمو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ وہ زمین کا لگان کس طرح ادا کرسکتا تھا۔ ذیل دار رحمو کے گھر آکر کہتا ہے:’’میں تم جیسے بھکاریوں کے کان کھینچ لیا کرتا ہوں۔ پانچ روپے ابھی ابھی پیدا کرو ورنہ میں گاؤں کے سارے چوکیداروں کو بلواکر تمھارا بھرکس نکلوا دوں گا۔‘‘
چند دن مہلت مانگنے کی پاداش میں اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے کھلیان کو بری طرح تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کے گھر کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ حتی کہ جیل میں ہی اپنا دن گزارتے گزارتے رحمو اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے۔ جب تک زندہ رہا ذیل دار کا ظلم وستم سہتا رہا۔ ذیل دار کے اپنے دشمنوں کے متعلق جذبات ایسے خطرناک اور زہر آلود ہیں کہ رونگٹے گھڑے ہوجاتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کسانوں کی قابل رحم زندگی کو نہایت جرأت مندانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ غریب طبقے سے محبت اور ہمدردی رکھتے ہیں، متوسط طبقے کی سفید پوشی اور امیر طبقے کی منافقت کو واضح کردیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کا مرکزی کردار دیہاتوں کے مفلس افراد کوبنایا، جن کو شدید محنت و مشقت کے باوجود دو و قت کی روٹی بھی ٹھیک سے میسر نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نےزندگی کے تلخ حقائق اور زندگی کی صداقتوں کو جاندار اور دلکش بنا کر پیش کیا۔ وہ ایک ایسا ماحول چاہتےتھے، جہاں ہر سو محبت ہی محبت ہو، جہاں ہر طرف امن و آشتی کا پہرہ ہو۔ کوئی جاگیردار کسی مفلوک الحال مزارع کا حق نہ لوٹے کوئی اعلیٰ طبقے کا فرد کسی ادنیٰ طبقے کے فرد کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلنے کی کوشش نہ کرے۔
انہوں نے اپنے افسانوں میں حالات کی ستم ظریفی معاشی جبر، ظلم وستم، سماجی قوانین اور نا انصافیوں پر مبنی نظام حقیقت کو پیش کیا ۔وہ انسان کی تذلیل و تحقیر کے سامنے خاموش تماشائی بن کر نہیں رہنا چاہتے تھے۔ وہ افلاس زدہ بستیوں اور گھرانوں سے پر زور متعارف کراتے رہے جو انتہائی بے بسی اور لاچارگی میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان مظلوموں کی حمایت میں وہ ہر وقت کھڑے نظر آئے ۔احمد ندیم قاسمی نے دیہی زندگی کی سفاک حقیقتوں کو جس طور پر پیش کیا ہے اس کی مثال کم ملتی ہے.