• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عریشہ بخاری

میں ،میری امی ،باجی ،بھابھی اور ان کےچھوٹے چھوٹے دو بچےنانی کی انتقال کی خبر سنتے ہی کراچی سے جیکب آباد کے لیے روانہ ہو ئے۔ ابو اور بھائی عمرے کے لیے گئے ہوئے تھے ۔لگ بھگ 5 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد اندھیری جھاڑیوں کے بیچوں بیچ گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی ہماری گاڑی بھی اسی قطار میں روک دی گئی ۔پہلے پہل تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا ۔چند منٹوں بعد اندھیرے سے کچھ آدمی آئے اور بہت ہی تلخ لہجے میں بھابھی سے پوچھا ! اتنی رات کو کہا ںجارہی ہیں ؟

کوئی مرد ساتھ کیوں نہیں ؟ کیا آپ جانتی نہیں کہ یہ سندھ ہے ،پیرس نہیں جو اکیلی عورتیں اتنی رات کو نکل جائیں ۔ان کی باتیں سن کر ہم سب خوف زدہ ہوگئے۔ امی جو ہمارے ساتھ پیچھے بیٹھی تھیں ،روتےلرزتے ہوئے بولیں کہ بیٹا جانےدو ،ایک ماں کی فریاد ہے ، اپنی ماں کا آخری دیدار کرنے جارہے ہیں، اتنا کہہ کرامی روتی رہیں اس آدمی نے کہا کہ، کوئی مرد کیوں ساتھ نہیں ہے تو بھابھی نےان کو بتایا کہ چند روز قبل ہی میرے شوہر اور سسر عمرہ کرنے گئے ہیں ۔

اس شخص نے بھابھی کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا خیر سے بے پروا ہوکر جاؤ پھر پیچھے مڑکر امی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہہ کہ اماں مجھے معاف کر دینا اور باجی سے کہا کہ چہرے پرصحیح طرح نقاب کرلو، پھر پوچھا کہ پیسے ہیں تم لوگوں کے پاس، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔امی کو جیب سے پیسے نکال کر دئیے اور کہا کہ اماں بیٹے کی طرف سے خیرات کردینا۔ انکار نہیں کرنا، پھر دعائیں دیں اور کہا آپ بے فکر ہو جائیں آگے راستے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

گاڑی کا نمبر نوٹ کیا اور کسی کو کال کر کے کہہ کہ، ایک گاڑی میں خواتین اور بچے ہیں راستہ کلئیر رکھنا ۔چند منٹوں کے سفر کے بعد دو موٹر سائیکلوں پر چار آدمی آئے ۔ان کے ہاتھ میں چند تھیلے تھے وہ انہوں نے ہمیں دیتے ہوئے آگے جانے کا اشارہ کیا ۔ ڈر ڈر کے ہم نے وہ تھیلے کھولے تو ان میں خشک میوہ ،تازہ پھل ،پانی اور دودھ کی بوتلیں تھیں۔ اُس وقت ان لوگوں کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔

تازہ ترین