لندن (وجاہت علی خان) برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے دفتر داخلہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ہوم آفس کا ’’امیگریشن انفورسیمنٹ یونٹ‘‘ 400ملین پونڈ سالانہ خرچ کرتا ہے، لیکن ہوم آفس کو بالکل انداز ہی نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم خرچ کرکے کیا حاصل کرتا ہے۔ ’’کراس پارٹی پبلک اکائونٹس کمیٹی‘‘ نے کہا ہے کہ محکمہ کے اوپری لیول پر تنوع کی کمی کی وجہ سے ’’ونڈرش‘‘ جیسا اسکینڈل دہرائے جانے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے، یاد رہے کہ یہ اسکینڈل2018ء میں منظرعام پر آیا تھا، جس کے مطابق ہوم آفس پر الزام تھا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو غلط طور پر حراست میں لیا، ان کے قانونی حقوق فراہم نہیں کیے اور غیر قانونی طور پر انہیں ڈی پورٹ کیا، ایک اندازے کے مطابق83اس قسم کے کیسز سامنے آئے تھے، ارکان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ ہوم آفس کی پالیسیاں خالصتاً مفروضہ اور تعصب پر مبنی ہوسکتی ہیں، جبکہ ہوم آفس کا کہنا ہے کہ ہم نے مناسب امیگریشن سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک متوازن نظام رکھا ہے۔ 15سال پہلے بھی ہوم آفس کے پانچ ہزار مضبوط امیگریشن انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی تنظیم نو کی گئی تھی، بتایا گیا ہے کہ آئندہ جنوری میں بھی محکمہ میں فریڈم آف موومنٹ کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ’’کراس پارٹی پبلک اکائونٹس کمیٹی‘‘ نے اپنی انتہائی تنقیدی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امیگریشن حکام پریشان کن اور کمزور شواہد پر انحصار کرتے ہیں، عہدیداروں کو اندازہ ہی نہیں کہ برطانیہ میں کتنے لوگ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، انہیں نہیں علم کہ اس وجہ سے ملکی معیشت پر کس قدر اثر پڑتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں تشویش ہے کہ محکمہ شواہد کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا بلکہ مفروضہ اور تنصیب کی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں، جس سے ہوم آفس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے، ارکان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ انہیں ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، جس سے ثابت ہو کہ ہوم آفس نے داخلی طور پر یا یورپی یونین کی اقوام کے ساتھ متوقع تبدیلی کے اثرات کے لیے کیا تیاری کی ہے، کیونکہ یہ خطرہ موجود ہے، یورپی یونین سے اخراج کے بعد غیر قانونی طور پر برطانیہ داخل ہونے والوں کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔