• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

40 منٹ کا سفر، زندگی بھر کا ڈراؤنا خواب بن گیا

شاہ راہ، چاہے ’’شاہراہِ حیات‘‘ ہو یا فاصلے مٹانے والی سڑک، معاشرتی زندگی کے لیے اہم سنگِ میل ہوتی ہے،لیکن چند روز قبل لاہور ، سیال کوٹ کو ملانے والی نو تعمیر شدہ 80 کلومیٹر لمبی شاہراہ (موٹر وے) فاصلوں کو سمیٹنے کے بجائےعُمر بھر کا ریگ زار، ایک ایسا خوف ناک موڑ ، ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی کہ جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ گرچہ اس واقعے کو دُہرانے کا مطلب متاثرہ خاتون اور اُن کے بچّوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس واقعے میں ’’زیرِ زمین‘‘ بعض ایسےخوف ناک حقائق چُھپے ہیں، جن پر غور کر کے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر ، سرکاری اداروں کی غفلت اور معاشرتی بے حِسی نے کس طرح ہماری ، بالخصوص خواتین اور بچّوں کی زندگیاں جہنّم بنا دی ہیں۔

8اور 9ستمبر کی درمیانی شب فرانس سے آئی ایک پاکستانی خاتون نے جب لاہور سے گوجرانوالہ کا قصد کیا، توان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ سفر ان کی زندگی کا ایک ہول ناک تجربہ ثابت ہوگا، جو شاید سفرِ حیات کی آخری منزل تک ان کے دل و دماغ سے محو نہ ہو سکے ۔خاتون فرانس میں پَلی بڑھیں، وہیں تعلیم حاصل کی، شادی ہوئی اور اب تین بچّوں کے ساتھ گوجرانوالہ میں اپنے سُسرال میں رہ رہی ہیں،جب کہ شوہر فرانس ہی میں ہیں۔ 

وہ لاہور اپنی ایک سہیلی کی تقریب میں شرکت کے لیے گئیں،جہاں سے واپسی پر دیر ہوگئی، لیکن ایک تو سفر تقریباً ایک گھنٹے ہی کا تھا، دوسرا وہ اُس رُوٹ پر پہلے بھی کئی بار سفر کر چُکی تھیں۔سوم، اُنہیں حکمرانوں کے دعووں سے لگا کہ واقعی یہ اب ایک مہذّب، پُر امن مُلک ، ’’ریاستِ مدینہ‘‘ہے۔متاثرہ خاتون کو بتایا گیا کہ لاہور رِنگ روڈ سے سیال کوٹ کی طرف موٹر وے نکلتی ہے،جس سے گوجرانوالہ کا سفر اور بھی مختصر اور آسان ہوگیا ہے، چناں چہ وہ رات کو اپنے تین بچّوں کے ساتھ، جن کی عمریں قریباً2سے 8سال کے درمیان ہیں، واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئیں۔ 

اُس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گاڑی میں پیٹرول کم ہے، لیکن انہوں نے شاید اس وجہ سے بھی اس معاملے کو کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں لیا کہ مہذّب ممالک میں عموماً موٹر ویز پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پیٹرول پمپس موجود ہوتے ہیں، لیکن یہی ان کی خام خیالی تھی۔ گرچہ اس موٹر وے کا افتتاح 6 ماہ پہلے ہوچکا ہے،ٹول پلازا بھی قائم ہے، لیکن پیٹرول پمپس، ریسٹورنٹس وغیرہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔اس سے بھی اہم بات یہ کہ موٹروے یا مقامی پولیس کی تعیّناتی بھی نہیں کی گئی، بلکہ یہ کام کمشنر لاہور کی انتظامیہ کے سپرد ہے۔ 

ابھی اس خاتون نے تین کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیٹرول ختم ہوگیا اور گاڑی ایک جھٹکے سے بند ہوگئی۔ اُس وقت خاتون موٹر وے پر گجر پورہ علاقے میں تھیں۔ یہ علاقہ دن میں بھی سنسان ہی رہتا ہے ، لیکن رات میں تو یہاں دُور تک ویرانی ہوتی ہے۔ اس جگہ موٹر وے کے دونوں طرف ڈھلوان کے بعد راوی کے گھنے جنگل اور تھوڑے فاصلے پر آبادیاں ہیں ، جہاں زیادہ تر خانہ بدوش آباد ہیں۔ ’’کرول گھاٹی‘‘ کے نام سے موسوم یہ علاقہ ایک عرصے سے ڈاکوئوں اور چوروں کی آماج گاہ ہے۔یہاں اس واقعے سے پہلے بھی ایسی کئی وارداتیں ہو چُکی ہیں ، جو میڈیا پر زیادہ ہائی لائٹ نہیں ہوئیں۔ اس وقت رات کے ڈیڑھ ،پونے دوبج رہے تھے،جب گاڑی پیٹرول ختم ہونے پرگُھپ اندھیرے میں بند ہو گئی۔ 

خاتون نے گوجرانوالہ اپنے رشتے داروں کو فون کیا، اُن کے ایک کزن نے کہا کہ وہ موٹر وے کی ہیلپ لائن 130 پر کال کریں ،تاکہ فوری مدد مل سکے۔ خاتون نے کال کرکے اپنی لوکیشن بتائی تو آپریٹر نے کہا ’’یہ علاقہ اُن کی عمل داری (JURISDICTION) میں نہیں آتا۔‘‘ اور ایک دوسرے نمبر پر کال کرنے کو کہا، جہاں سے جواب ملا کہ ’’ فکر نہ کریں، ہم پہنچ رہے ہیں۔‘‘ اس دوران خاتون نے رات کی تاریکی میں گاڑی کا ہیزرڈ آن کردیا تاکہ آنے جانے والے دیکھ سکیں۔کسی اور گاڑی نے تو رُکنے کی زحمت نہ کی، البتہ دو ڈاکو ضرور نمودار ہوگئے، جن میں سے ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا اور اور دوسرے کے ہاتھ میں پستول تھی۔ 

خاتون نے گاڑی لاک کی ہوئی تھی۔جب انہوں نے ڈاکوئوں کے کہنے پر شیشہ نیچے نہ کیا، تو ایک ڈاکو نے پتھر مار کر فرنٹ سیٹ کا شیشہ توڑ دیا،اے ٹی ایم کارڈز، زیور،نقدی لُوٹی اور خاتون کو سڑک سے نیچے جنگل کی طرف چلنے کو کہا۔ خاتون مسلسل مزاحمت کرتی رہیں۔ اس دوران ایک گاڑی وہاں سے گزری،تو خاتون نے اُسے ہاتھ دے کر روکنے کی بھی کوشش کی۔ تیز رفتاری کے باعث گاڑی رُکی تو نہیں، لیکن اُس میں موجود شخص نے آگے جا کر 15 پر کال کرکے سارا ماجرا ضرور بتا دیا۔ 

اسی اثنا پہلے ڈاکو نے باقی دونوں بچّوں کو بھی جنگل کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ ماں، بچّوں کو بچانے کے لیے ڈاکوئوں سے الجھ پڑی اور ساتھ ساتھ التجائیں بھی کررہی تھی کہ بچّوں کو چھوڑ دو، لیکن وہ درندے بچّوں کو کھینچتے ہوئےقریبی ویران جنگل میں لے گئے۔ ماں بھی دیوانہ وار اُن کے پیچھے بھاگی۔اور پھر اُن سفّاک وحشیوں، جنگلی درندوں نے بچّوں کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ، ماں سے زیادتی کی۔ماں، بچّوں کو مسلسل آنکھیں بند رکھنے اور کلمہ پڑھنے کی تاکید کرتی رہی۔اسی دوران دُور سے موٹر سائیکل اور پھر فائرنگ کی آواز آئی، تو وہ دونوں بھیڑیے’’خاموشی سے یہیں بیٹھی رہو، اگر شور کیا تو چاروں کو گولی مار دیں گے‘‘کہتے ہوئے اندھیرے میں گُم ہو گئے۔

اس حوالے سے ڈولفن فورس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں 15 پر کال موصول ہوئی، تو وہ بتائی گئی لوکیشن پر پہنچے۔جہاں انہوں نے سڑک کنارے ایک گاڑی کھڑی دیکھی۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور اُس میں کوئی نہ تھا۔وہ ڈھلوان سے نیچے اُتر کر ’’کوئی ہے؟، کوئی ہے؟‘‘پکارتے رہے، لیکن جنگل سے کوئی آواز نہ آئی۔ پھر انہوں نے ہوائی فائرنگ کی اور ٹارچ کی روشنی میں ڈھلوان عبور کر کے قریباً 10 فٹ نیچےپہنچے، تو انہیں ایک بچّے کا جوتا نظر آیا۔ اس دوران انہیں ایک ڈری سہمی ، خوف زدہ عورت کی سِسکتی ہوئی آواز سنائی دی، ’’اللہ کا واسطہ ، ہمیں قتل نہ کرو۔ مَیں تمہیں اور رقم بھی دے دوں گی، ہم کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے‘‘۔ وہ آواز کی سمت دوڑے تو دیکھا، عورت کے کپڑے پھٹے اور بال بکھرے ہوئے تھے ،جب کہ اس نے تینوں بچّوں کو اپنی بانہوں میں جکڑ رکھا تھا۔ خاتون ان کو پولیس اہل کار ماننے کو تیار نہ تھی اور مسلسل چیخ چلّا رہی تھی۔ 

بالآخر ،جب ایک اہل کار نے اسے بہن کہہ کر پکارا، تو اس کے اوسان بحال ہوئے۔ اس سے پہلے وہ بچّوں سے مسلسل کہہ رہی تھی کہ’’ تم آنکھیں بند کر کے کلمہ پڑھو۔‘‘ اور خود بھی پتھرائی آنکھوں سے کلمے کا ورد کیے جا رہی تھی۔ ڈولفن اہل کاروں نے وائرلیس پر کنٹرول آفس اطلاع دی، تو آدھے گھنٹے میں مزید فورس ایک خاتون اہل کار کے ساتھ جائے وقوعہ پرپہنچ گئی ، جس نے اس خوف زدہ خاتون کے جسم پر چادر ڈالی اور اسے تسلّی دی۔ اسی دوران خاتون کا کزن بھی وہاں پہنچ گیا۔ متاثرہ خاتون، بچّوں کواسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا اورکچھ دیر بعد انہیں گھر روانہ کر دیا گیا۔ یوں خاتون کا چالیس مِنٹ دورانیےکا سفر، اُن کےبرسوں پر محیط اس کے سفرِ حیات کا ایک ایسا روگ بن گیا، جو اب شاید تمام زندگی ایک بھیانک خواب کی صُورت اُن کے حواسوں پرمسلّط رہے گا۔

حادثے کے بعد …

گرچہ متاثرہ خاتون کو یقین دلایا گیا تھا کہ یہ واقعہ میڈیا پر نہیں جانے دیا جائے گا،مگر اس کی سنگینی اس قدرتھی کہ اسے چُھپایا اور دبایا نہ جا سکا۔ الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوزچلتے ہی پورے مُلک میںایک ہیجانی سی کیفیت پیدا ہو گئی، جو پاکستان میں ایسے مواقع پر عام طور پر پیدا ہوتی اور پھر وقت کی گرد میں دَب جاتی ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے بھی شدید ردّ ِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے مجرموں کے لیے انتہائی سخت سزا کے حق میں ہیں۔واقعےکے فوری بعد لاہور کے سی سی پی او کا سامنے آنے والاایک بیان کہ ’’خاتون نے پیٹرول کیوں چیک نہیں کیا؟ وہ رات کے وقت اکیلی کیوں نکلی اور جی ٹی روڈ کا راستہ کیوں نہ اختیار کیا؟‘‘ متنازع بنا رہا ،جس پرسی سی پی اوکو عدالت میں معافی بھی مانگنی پڑی۔ تاہم، اس واقعے نے بے شمار ایسے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں،جن کے جواب تا حال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب میں روایت ہے اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو وزیر اعلیٰ زیادتی کا نشانہ بننے والے کے گھر ضرور جاتے ہیں اور متاثرہ فیملی کو دلاسا دینے ،سر پر دستِ شفقت رکھنے کے علاوہ جلد انصاف کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔

شہباز شریف بھی اپنے دَور میں ایسے ہر موقعے پر متاثرین کے گھر جاتے رہے، لیکن حالیہ واقعے پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس فیملی کے گھر تو نہ جا سکے، البتہ دو روز بعد پنجاب کے آئی جی اور حکومتِ پنجاب کے ترجمان کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس کرنے میں ضرور کام یاب ہوگئے، جس میں انہوں نے قوم کو یہ’’ خوش خبری ‘‘ سُنائی کہ وہ دونوں مشتبہ افراد کی شناخت میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ایک کی گرفتاری کے لیے چھاپہ بھی مارا گیا،مگروہ فرار ہوگیا۔

نیز،اطلاع دینے والوں کے لیے انہوں نے 25,25لاکھ روپے کےانعام کا بھی اعلان کیا۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد پریس کانفرنس تھی، جس میں انعامات کے اعلان کے ساتھ یہ خبر دی گئی کہ مرکزی ملزم فرار ہونےمیںکام یاب ہوگیاہے۔ بعد ازاں، ایک مشتبہ نوجوان ،وقار الحسن پکڑا گیا ،جس کی نشان دہی پر دیپالپور کی تحصیل ،ہارون آباد سے ایک ملزم شفقت علی بگا کو گرفتار کر لیا گیا، جس کا ڈی این اے بھی میچ کر گیا،جب کہ دوسرا مرکزی ملزم عابدملہی تادمِ تحریر گرفت میں نہیں آ سکاہے۔ تحقیقات سے معلوم ہواہے کہ یہ دونوںعادی مجرم ہیں اور مل کر وارداتیں کرتے ہیں۔ 

ملزم شفقت نے اقبالِ جرم کے ساتھ پورے واقعے کی تفصیل بتائی اور یہ بھی کہ ’’وہ گزشتہ چار سال سے عابد کے ساتھ مل کر ڈکیتی اور گینگ ریپ کی 11وارداتیں کر چُکا ہے۔‘‘ عابدملہی 7سال پہلے شہباز شریف کے دَور میں بھی ایک واردات کے بعدپکڑا گیا تھا ۔ وہ اپنے ماموں کا قاتل بھی ہے اورتقریباً پورا خاندان ہی مزدوروں کےرُوپ میں مختلف جرائم میں ملوّث ہے۔ بعد ازاںاس کیس میں ملزم وقار الحسن کو بے گناہ قرار دے دیا گیا، حالاں کہ ابتدائی طور پر پورے میڈیا میں اس کی تصویر کے ساتھ اسے مجرم بنا کر پیش کیا جاتا رہاتھا۔ وقار الحسن نے اَز خود گرفتاری شاید اس لیے بھی دی کہ اسے خدشہ تھا کہ کہیں اسے پولیس مقابلے میں ہلاک نہ کر دیا جائے۔ بہرحال، چوں کہ یہ واقعہ انتہائی سنگین، شرم ناک اور لرزہ خیز ہے، اس لیے پوری پنجاب پولیس پوری طرح سر گرم ہےاور مجرموں کا بچ نکلنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔

جواب طلب سوالات :

یہ اندوہ ناک واقعہ بھی، ایسے دوسرے درجنوں واقعات کی طرح ایسے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے ،جو مجرموں کی سزا یابی کے بعد بھی جواب طلب ہی رہیں گے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ خاتون نے جب سب سے پہلے 130ہیلپ لائن پر کال کی اور اسے ایک اور جگہ کال کرنے کو کہا گیا تو اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کے پسِ پردہ کیاعوامل ہیں۔ اس علاقے میں اس سے پہلے جو وارداتیں ہوتی رہیں ،جن میں سے بہت کم رپورٹ ہوئیں، ان کی سرپرستی کون کر رہا تھا اورگجر پورہ تھانےکی پولیس کا اس میں کیا کردار ہے۔ جب کہ اس جنگل میں بعض غیر قانونی نجی تفتیشی مراکز بھی منظرِ عام پر آئےہیں، جہاں لوگوں پر تشدّد کیا جاتا ہے۔ 

یہاں ایک ایسے راستے کا بھی انکشاف ہوا، جسے ڈاکو موٹر وے تک آنے اور لوٹنے کے بعد فرار ہونے کے لیےاستعمال کرتے ہیں،تو کیا پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارےان تمام باتوں سے بے خبر تھے؟یہاںیہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب ابتدا میں وقار الحسن کی نشان دہی پر پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے تو مرکزی ملزم عابد کو کس نے پولیس کی کارروائیوں سے آگاہ کیاکہ وہ فرار ہونے میں کام یاب ہو گیا۔ 

وقار الحسن کی بے گناہی کے باوجود اس کی تصویر میڈیا پر کس نے اور کیوںجاری کی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مجرموں نے خاتون کا پرس جب واپس ڈیش بورڈ پر رکھا، تو اس کے ساتھ ایک ہزار روپے بھی تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ابتدا میں پولیس کو کال کرنے پر جب خاتون سے پوچھا گیا کہ کتنا پیٹرول چاہیے، تو خاتون نے کہا کہ ایک ہزارروپے کاکافی ہے، اس سے وہ گھر تک پہنچ جائیں گی۔ کیا موٹر وے پولیس کے بعض اہل کار بھی ڈاکوئوں کے مخبر بنے؟ اگر موٹر وے کا یہ علاقہ مستقل ایک کرمنل بیلٹ میں تبدیل ہو چُکاہے، تو اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ 

سب سے بڑھ کر یہ کہ سابق آئی جی، شعیب دستگیر نے 28جولائی 2020ء کوموٹر وے پولیس کو لکھا کہ’’ افتتاح کے باوجود سیال کوٹ موٹر وے پر کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیںکہ ہمارے پاس اتنے ٹریفک وارڈنز ہی موجود نہیں۔ اس لیے پولیس کو یہاں کم از کم 100اہل کار تعیّنات کرنے چاہئیں تاکہ لوگ بحفاظت سفر کر سکیں‘‘لیکن آئی جی کے اس خط کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیااور یہ 80کلو میٹر لمبی شاہ راہ لاوارث ہی رہی ،جس پر سفر کرنے والے عموماًرات کو مجرموں ہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ 

ان سوالات کے جوابات تو شاید کبھی ملیں، لیکن معروف کالم نگار، جاوید چوہدری کے بقول ’’خاتون بڑی بے وقوف تھی، سمجھ رہی تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی انسان بستے ہیں۔ یہاں لاء بھی ہے اور آرڈر بھی۔ تب ہی اُٹھی، بچّوں کو لیا اور گوجرانوالہ روانہ ہو گئی۔ بھول گئی کہ یہ ریاست، بے شک ریاستِ مدینہ ہوگی، لیکن اس میں حضرت عُمر فاروقؓ جیسا حکمران نہیں۔ یہ درندوں کے ایک غار کو معاشرہ سمجھ بیٹھی تھی۔‘‘

تازہ ترین