• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لکھنو کی تہذیب سکڑ گئی، ضمیر نقوی کیاگئے

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
لکھنؤ کی تہذیب اور لکھنؤ کو ہم نے آنکھوں سے نہ دیکھا تو کیا ہوا کچھ کردار تو ایسے دیکھے کہ جنہیں دیکھ کر تشنگی او حسرت میں کمی آئی۔ ادب سے پیار کرنے والوں کو ادب کا گھرانہ لکھنؤ ہر دم ذہن میں رہتا ہے اورسوچ ایک ذہن پر چھائی رہتی ہے کہ لکھنوی تہذیب ے کچھ ادب و آداب ہی سیکھ لئے جائیں کہ ہمارے انداز و اطوار، طرز تکلم، طبیعت میں ٹھہرائو، لہجے میں روانی، گفتگو میں شستگی اور دوسرے مزاج کے معاملات میں نرمی پیدا ہوسکے۔ بعض مرتبہ ہمارا ذہن ہم سے استفسار کرتا ہے کہ ہم کیوں نہ لکھنؤ کے ادائے آداب بھرپور طریقے سے سیکھ پائے۔ کیا کرو گے اگر تمہاری تہذیب و اقدار دفن ہوگئیں تو ! لیکن پھر دل سے آواز آتی ہے کہ اس شہر دلداراں کے بہت سے کردار زندہ ہیں۔ ان ہی سے سیکھیں گے کہ وضع داری کس کمال کی صفت کا نام ہے۔ کردار زمانہ سازی کیسے کرتے ہیں۔ تہذیب کے بدلتے دھاروں کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ذوق و شوق کا اہل کیسے ہوا جاتا ہے کونسی ادا اپنائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہم لکھنؤ کے ہر خاص و عام سے مل کر جان سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ شہرہ آفاق لکھنوی تہذیب کے خدو خال کی نشاندہی نوابین ان کی بیگمات یا ان سے منسلک احباب ہی کرتے نظر آئیں بلکہ وہاں کے ہر باسی و شہری کو انفرادیت کا پیکر کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب کی آبیاری میں ہر خاص و عام کا کردار ہے، یوں بھی تہذیب کا مظاہرہ صاحب اقتدار طبقہ نہیں کرتا اس کی بنیاد ہر خاص و عام کے فعل و عمل سے روشن و ظاہر ہوتا ہے۔اخلاقی و معاشرتی اقدار پر بنی لکھنوی تہذیب میں رنگ وہاں کی عمارات، طرز بو دوباش، فنون لطیفہ، شعر و ادب، علوم و فنون، لباس و طعام، ثقافتی روایات ان سب کو رنگین وہاں کے کرداروں نے کیا وہاں اگر ان تمام رنگوں کے ساتھ داستان، طرز کلام، تخلیقی کام، افسانوی کردار بیان کرنے والے نہ ہوتے تو رنگ پھیکا رہتا۔ کرداروں ہی سے ثقافتی، ادبی، بودوباش غرض تہذیب کے انفرادی رنگ وہاں کے خاص و عام سے وابستہ ہیں۔ یہ کردار نہ ہوتے تو لکھنو کی تہذیب ہماری آنکھ سے اوجھل رہتی۔ ان ہی چلتے پھرتے، بولتے چالتے کرداروں نے ہمیں بتایا کہ ہم ہی امیں ہیں اس تہذیب کے۔ لکھنوی وضع داری ہم ہی سے قائم ہے۔ایسے ہی لکھنوی وضع داری کے امین وہ بھی تو تھے کہ جن کی وضع داری ان کی شخصیت سے جھلکتی تھی۔ وہ جن کا پچھلے ہفتے انتقال ہوگیا۔ جن کی بابت اب بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ ان کی شخصیت، ان کا انداز، ان کا علم، ان کی تصنیفات، مرثیہ نگاری کے سلسلے میں۔ ان کی تخلیقات، ان کی مجالس، ان کے باغ وبہار اسلوب، ان کی لائبریری وغیرہ وغیرہ وہ جو لکھنؤ کی تمہید ہم نے شروع میں باندھی ہے وہ مولانا ضمیر اختر نقوی کی شخصیت اور ان کی تصانیف جس میں لکھنوی انداز جھلکتا ہے کہ مد نظر رکھ کر باندھی ہے۔ابھی رمضان میں حضرت علیؓ کے موضوع پر ان کی علمی گفتگو سنی تو چہرے میں متانت سجائے سنجیدگی سے گفتگو فرما رہے تھے۔ لہجے کا اعتماد بتا رہا تھا کہ غیر معمولی شعور و قابلیت ہے۔ وہ بتا رہے تھے اپنی ذاتی بڑی سی لائبریری کے بارے میں کہ کیسے ان کی قیمتی کتب کو پذیرائی بخشی گئی کہ مسٹر جیمس نے ان کی لائبریری میں شوق سے کتابوں کو پسند کیا۔ کئی بہترین قدیم قلمی اور نادر نمونے پسند کرنے کے بعد انہیں خرید کر امریکہ کی کانگریس لائبریری کی زینت بنائیں۔ انہیں یہ بھی شکوہ رہا کہ یہ کتب کے اعلیٰ نمونے پاکستان کے کسی ادارے یا لائبریری نے نہ خریدے مگر امریکہ کی واشنگٹن لائبریری میں محفوظ ہوگئے۔علامہ ضمیر نقوی ممتاز سکالر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر گریجویشن کی ڈگری تک لکھنؤ سے حاصل کی، علامہ ضمیر نقوی کو مرثیہ نگاری سے خاص دلچسپی تھی، آپ نےاس پر بہت کام کیا۔ اردو ادب کو جس قدر کربلا کے واقعات سے جوڑنے کا کام علما نے کیا ان میں علامہ ضمیر نقوی بھی شامل ہیں۔ نوادرات مرثیہ نگاری میں علامہ کی اہم کتب اس کا ثبوت ہیں۔ جب بھی ان کے انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھو ٹھہرے ہوئے لہجے اور دلیل سے گفتگو کرتے چہرے مہرے سے علمی شخصیت دکھائی دیتے، کیسے نہ ہوتے علمی شخصیت کہ آپ نے مجموعی طورپر 300 سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں۔ علامہ صاحب کی علمیت کا یہ حال تھاکہ ان سے مرثیہ نگاری سے متعلق کوئی بھی سوال پوچھ لیجئے ان کے پاس جواب حاضر رہتے تھے۔ ان کی تحقیق نہایت وسیع تھی۔ کس نے اُردو اور فارسی میں کہاں مرثیہ لکھا، انہیں تمام تاریخ و کردارازبر تھے۔ آپ نے بہت سی جگہوں سے مختلف زبانوں کے مرثیے جمع کئے۔ علامہ ضمیر نقوی کے ایک اور انٹرویو سے مرثیے کی تاریخی حقیقت معلوم ہوئی کہ شجاع الدولہ کے دور میں دلی سے تمام شعراء فیض آباد آگئے تھے ان کی ہجرت سے ہی مرثیہ نگاری شروع ہوئی۔ آصف الدولہ کی والدہ بہو بیگم کی عزاداری کی وجہ سے مرثیے کا عروج ہوا۔ آصف الدولہ بھی مرثیے کہتے تھے۔لکھنؤ کے پروردہ اور اپنے قبیلے کے آخری آدمی انہیں کہا جارہا ہے کہ کہنے والے تو دکھی دل سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں لکھنوی تہذیب سے آراستہ آخری مجلس بھی تمام ہوئی، حالانکہ علامہ ضمیر نقوی پر ان کی زندگی میں کافی تنقید بھی ہوئی مگر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ شہر دلداراں کے دلدار راہی عدم کو سدھار رہے ہیں۔ تہذیب لکھنؤ کی پہچان کرانے والے ہم میں نہ ہوں گے تو گھروں سے تہذیب بھی اٹھ جائے گی کہ قدر و بے قدری کی قدر بھی ہم کھوتے جارہے ہیں۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا ہم نے کہ لکھنوی تہذیب میں رنگ وہاں کی عمارات، سلطنت اور خاص لوگ ہی نہیں بھرتے بلکہ عام لوگ مگر خاص کام کرنے والے بھرتے ہیں، وہی لوگ عام لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر اپنے کردار کی دھاک بٹھاتے ہیں کہ تاریخ ان کے کردار سے رقم ہوتی ہے۔ ان کے کام بلکہ محنت طلب کاموں سے رقم ہوتی ہے۔ علامہ ضمیر نقوی کا بہت بڑی لائبری ترتیب دینا، وہ بھی تحقیق ، محنت اور عقیدت کے ساتھ وسیع کرنا، ان کی اہل بیت سے نہایت عقیدت و احترام ہے کہ کربلا یاد ان ہی کی وجہ سے ہے۔ کہنا پڑے گا کہ ؎وہ دن مجھ پر پڑا ہے خیر و شرکاکہ اپنی ذات میں اک کربلا ہوں۔
تازہ ترین