• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سیّد اقبال حیدر۔۔۔فرینکفرٹ
اسرائیل کے امارات،بحرین معاہدے نے اسلامی دنیا کو ایک نئے موڑ پر کھڑا کر دیا ہے،معاہدہ کرنے والے اور معاہدہ کے درپردہ حمایتی بظاہر مطمئن ہیں مگر ان ممالک کی عوام میں بے چینی موجود ہے، دوسری طرف اسلامی ممالک کی بڑی تعداد اس معاہدہ کوذلت آمیز اور اسلامی دنیا سے خیانت اور غداری قرار دیتے ہوئے اسے عرب دنیا کی تاریخ کا سیاہ دن اس لئے قرار دے رہی ہے کہ اس معاہدے کے اثر میں اسلامی کیلنڈر میں عربوں کی شکست اور ناکامیوں کے نئے خاکے بن گئے،فلسطینی مجاہدین کے مطابق اسرئیل سے ماضی میں ’’گلے ملنے‘‘ والے مصر،اردن اور اب حالیہ نئی دوستی کرنے والے امارات اور بحرین کے اسرائیل سے درپردہ روابط تو پہلے ہی موجود تھے۔ ان ممالک کے سربراہان نے کبھی بھی قبلہ اوّل اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کی تھی مگر ایک بھرم قائم تھا کہ مسلمان ایک ہیں ،مگر آج اعلانیہ طور پر دو اور اسلامی ملک امریکہ کے نام نہاد امن منصوبے،سنچری ڈیل کے حق میں مسجد اقصیٰ کے حق سے دستبردار ہوتے ہوئے ’’ قضیہ فلسطین‘‘ کو ختم کرنیکی سازش میں معاون اور فلسطینی قوم کے نصب العین کے ساتھ غداری کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کی نظریں ایسے حالات میں سرزمین حجاز کی طرف اٹھتی ہیں، ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ آئندہ دنوں میں سعودی عرب اور بہت سے اسلامی ممالک اسرئیل کے ساتھ بائیکاٹ ختم کر کے دوستانہ روابط قائم کر لیں گے۔عالمی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امارات اور بحرین، سعودی عرب کے مثبت اشاروں کے بغیر اسرائیل سے دوستی کااتنا بڑا فیصلہ کبھی نہیں کر سکتے تھے۔قطر،پاکستان،ایران ،ترکی اور بہت سے اسلامی ممالک ابھی بیت المقدس اور فلسطینیوں کے حقوق کے حق میں اپنے فیصلوں پر قائم ہیں مگر،مستقبل میں اگر کچھ اور مسلم ممالک امریکہ کی خوشنودی کے لئے اپنے موقف پر کمزور پڑ گئے تو یہ اسرائیل کی کامیابی ہو گی اور یہودی اپنے منصوبوں اور مقاصد میں کامیاب ہوتا نظر آئے گا۔قرآن پاک میں یہودیوں کو قاتلینِ انبیا ء و مرسلین کہا گیا ہے ،انھوں نے ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا،سازشیں ان کے خون میں شامل رہیں،مغربی اقوام نے ان کی شرانگیزی سے خائف ہو کر انھیںخود سے دور کیا اور مسلمانوں کے صحن میں لا بٹھایا۔ اگر ہم تاریخ کو ایک نظر بغور دیکھیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ یہودی روزِ اوّل سے دنیا پر حکمرانی کے خواہاں نظر آئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کے مالک ہیں اور دنیا پر حکمرانی کا صرف انہیں حق حاصل ہے، ماضی اورحال میں اس کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں،فلسطینیوں کے مرکز ’’بیت المقدس‘‘ میں امریکی سفارت خانہ کا کھلنا اس بات کا اشارہ تھا کہ بیت المقدس اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے،پچھلی کئی دھائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ عالمی میڈیا میں دہشت گردی جیسی لعنت کو جوڑنا یہودی پالیسیوں کا ایجنڈا بنا رہا،عالمی اقتدار کے حصول کے لئے یہودیوں نے منظم منصوبے بنائے،مسیحی مکتب فکر کا ’’غدار باغی‘‘ ماہر قانون ویشا پٹ جسے انسانیت دشمن اور شرانگیزی کے جرم میں چرچ سے نکالا گیا وہ عیسائیت ترک کر کے یہودیوں سے جا ملا ،یہودیوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور وہ ان کے ساتھ ملکر سازشوں کے جال بننے میں مشغول ہو گیا،اس نے اپنی خفیہ تنظیم ’’داعیان حق‘‘ کے پلیٹ فارم سے یہودیوں کی دنیا پر حکومت کے منصوبے بنائے، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے درپردہ برطانیہ اور امریکہ کی مدد کر کے ترکی اور جرمنی کو شکست دلائی،یہودیوں نے برطانیہ کو یہ امید دی کہ مستقبل میں بھی ترکی کے منصوبوں کو ناکام کر کے یورپ کا تاج برطانیہ کے سر پر سجا رہے گا،اسی منصوبے کے تحت پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں یورپ نے بے شمار کمزور اور چھوٹے ممالک پر قبضہ کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جب ان کے قبضے کمزور ہوئے تو مالیاتی ادارے قائم کر کے ان غریب ممالک کو اپنے قرضوں میں جکڑ کر غلام بنا لیا ،IMF اور ورلڈ بینک کی امداد یہودیوں کی دنیا پر حکمرانی کے خواب کی تعبیر کی صورت میں سامنے ہے،ایک طرف دو مسلم ملکوں میں جنگ ہوتی ہے ملکوں کی تباہی کے بعد یہ مالیاتی ادارے IMF اور ورلڈ بینک ان ممالک کی مدد کے منصوبوں کے اعلانات شروع کر دیتے ہیں،یہودی اور مغربی طاقتیں ہماری بستیوں کو مسمار کر کے پھر ہمارے گھروں کی تعمیر کے لئے ہمیں قرضے دیتی ہیں، شام،لیبیا،افغانستان ،یمن خاک کا ڈھیر بن گئے، آج نیویارک میں22 انتہائی حساس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ حساس شعبے انٹرنیشنل پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں،یونیسکو میں 9 بااثر شخصیتیں یہودی ہیں،عالمی بینک میں6 اور IMF کے9 شعبوں کے 6سربراہ یہودیوں کے حمایت یافتہ ہیں،اقوام متحدہ کے10اہم شعبوں میں73 یہودی اہم عہدوں پر فائز ہیں یہ تمام بااثر افراد انٹرنیشنل امورپر اثر انداز ہیں ،حتی کہ امریکہ میں حکومتیں ان یہودیوں کے اشاروں پر قائم ہوتی ہیں اور ہر آنے والا صدر اسرائیل کی بقا اور سلامتی کے لئے دنیا سے برسرپیکار رہتا ہے ۔یہودی لابی کے نزدیک ہمارے نبی اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنانے کی میڈیا کو آزادی ہے مگر ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر گفتگو جرم ہے، یہ تو تھی یہودیوں کی عالمی سازشیں ان کے اثرات اور ان کے عزائم مگر دوسری طر ف دیکھیں کہ مسلمان آج کہاں کھڑا ہے ہمارے ہاں اسلامی ممالک کی قیادت کی بھیڑ بکر یوں کی طرح درپردہ خرید و فروخت ہو رہی ہے ،میر جعفر،میر صادق پھر ابھر کا سامنے آ رہے ہیں، ہم مسلمان شیعہ سنی دیوبندی بریلوی کی تقسیم میں مصروف ہو کر یہودیوں ہی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں،پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ قرض کا بوجھ لیکر دنیا میں آتاہے،اور ہم اس بوجھ تلے ریاستِ مدینہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
تازہ ترین