• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10دن کا الٹی میٹم، اکتوبر سے تحریک، جنوری میں لانگ مارچ اور دھرنا، مناسب وقت پر پارلیمنٹ سے تحریک عدم اعتماد، اپوزیشن اتحادPDM قائم

10دن کا الٹی میٹم، اکتوبر سے تحریک


اسلام آباد (نمائندگان،ایجنسیاں،جنگ نیوز، ٹی وی رپورٹ)پاکستان پیپلزپارٹی کے زیرانتظام اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں تمام جماعتوں نے مزید باہمی تعاون کرنے پر اتفاق کیا.

مولانا فضل الرحمٰن نے 26 نکات پر مشتمل اعلامیہ پڑھا جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن اب اس ربر اسٹمپ پارلیمنٹ سے مزید تعاون نہیں کریگی۔ اپوزیشن نے حکومت کو10دن کاالٹی میٹم دیتے ہوئے اکتوبرسے تحریک، جنوری میں لانگ مارچ اوردھرنے کا اعلان کیا ہے.

مناسب وقت پر پارلیمنٹ سے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) قائم کردیا۔اپوزیشن نے وزیراعظم سے فوری استعفیٰ دینے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے،حزب اختلاف نے انتخابی اصلاحات کا نیاقانون بنانے، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے.

میثاق جمہوریت پرنظرثانی کیلئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ قبل ازیں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں یا جیلوں میں ہیں، یہ فیصلہ کن موڑ ہے، ʼاگر ہم آج فیصلے نہیں کرینگے تو کب کرینگے.

سابق آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت مخالف تحریک چلانے پر جیل جانے والا میں پہلا فرد ہوں گا۔بلاول بھٹو زرداری جو قوتوںنے عوام سے جمہوریت چھینی ہے اور کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑیگا، اب ہم سارے آپشن استعمال کرینگے، مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن جماعتوں سے اسمبلیوں سے فوری استعفے کامطالبہ کیا جبکہ شہبازشریف و دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت برائے نام ہے۔ 

اپوزیشن کی جانب سے 4 صفحات کا اعلامیہ جاری کیاگیا جس کو ’کل جماعتی کانفرنس قرارداد‘ کا نام دیا گیا ہے اس اعلامیے میں 26 نکات شامل ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 73؍ کے آئین، 18؍ ترمیم، NFC ایوارڈ پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، صدارتی نظام رائج کرنے کا منصوبہ مسترد، سقوط کشمیر کی ذمہ دار سلیکٹڈ حکومت قرار دیا گیا ہے، قرارداد میں نیشنل ایکشن پلان پرعمل کرنے، غیر جانبدار ججوں کیخلاف ریفرنس ختم اورآغاز حقوق بلوچستان پر عملدرآمد یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے.

قرارداد میں سی پیک منصوبوں پرکام تیز کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ ربڑاسٹیمپ پارلیمنٹ سے تعاون نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اعلامیے میں گلگت بلستان میں بغیر مداخلت انتخابات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق اپوزیشن کی اے پی سی کا 4 صفحات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، جسے کل جماعتی کانفرنس کی قرار داد قرار دیا گیا اور بتایا کہ قومی سیاسی جماعتوں کا نیاسیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل دیا گیا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے قرار داد پیش کی گئی ہے کہ یہ اتحادی ڈھانچہ حکومت سے نجات کیلئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم کریگا جبکہ آئین کی 18 ویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔قرارداد میں کہا گیا کہ پارلیمان کی بالا دستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی، سیاسی انتقام کا شکار اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار اراکین کو رہا کیا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ناتجربہ کار حکومت نے سی پیک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 

اے پی سی کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں بغیر مداخلت انتخابات کروائے جائیں جبکہ اجلاس پاکستان بار کونسل کی اے پی سی کی قرارداد کی توثیق کرتا ہے۔ اجلاس نے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کی مذمت کی گئی۔اے پی سی کے اجلاس میں اعلی تعلیم کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے کٹوتی کی مذمت کی گئی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ آغاز حقوق بلوچستان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے جبکہ چارٹر آف پاکستان مرتب کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔اے پی سی کی قرار داد میں کہا گیا کہ ٹرتھ کمیشن تشکیل دیا جائے، کمیشن 1947 سے سے اب تک پاکستان کی حقیقی تاریخ کو حتمی شکل دے۔ 

کل جماعتی کانفرنس نے حکومت کی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا جبکہ سیاسی قائدین، رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی جھوٹے مقدمات کی شدید مذمت کی گئی، اجلاس میں جھوٹے مقدمات کے تحت گرفتار سیاسی قائدین اور کارکنوں کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اجلاس میں خورشید شاہ اور حمزہ شہباز سمیت سیاسی رہنماؤں کی جرات و استقامت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔اے پی سی نے امن و امان کی سنگین صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں فوری انتخابی اصلاحات کی جائیں، ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔ 

قرارداد میں کہا گیا کہ سلیکٹڈ حکومت سقوط کشمیر کی ذمہ دار ہے، سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا ہے۔کل جماعتی کانفرنس نے نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرنے مطالبہ کرتے ہوئے حالیہ فرقہ ورانہ تناؤ پر حکومت کی مجرمانہ غفلت کی مذمت کی۔ 

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سی پیک منصوبوں کو فوری تیز کیا جائے۔اے پی سی اجلاس میں کہا گیا کہ عوام کے آئینی بنیادی انسانی حقوق کے منافی قانون سازی کی جا رہی ہے جبکہ اپوزیشن آج سے ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی۔ 

قرارداد میں کہا گیا کہ شہری آزادی کے منافی غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر قانونی قوانین کو کالعدم کیا جائے، ایوان کی کارروائی کو بلڈوز کر کے کی گئی قانون سازی واپس لی جائے۔اے پی سی کی قرارداد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق احتساب کا نیا قانون بنایا جائے۔کل جماعتی کانفرنس میں کہا گیا کہ میڈیاپرتاریخ کی بد ترین پابندیوں، دباؤ اورحکومتی ہتھکنڈوں کی شدیدمذمت کی گئی۔ 

قرار داد میں کہا گیا کہ جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن سمیت تمام گرفتار صحافیوں، میڈیا پرسنز کو رہا کیا جائے۔ اے پی سی کی قرار داد میں کہا گیا کہ عدلیہ، ڈیفنس سروسز، بیوروکریسی یا پارلیمان کے افراد کا ایک قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے۔ 

اے پی سی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ حکومت سلیکٹڈ ہے اور دھاندلی کے ذریعہ معرض وجود میں آئی اور سوا دو سال میں پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی پوری قوم کے سامنے ہے، غربت، بیروزگاری مہنگائی، کرپشن اسکینڈلز کی بھرمار ہے۔ 

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ کے سامنے آج ہم سب جماعتیں بیٹھی ہیں، ہمارا جو اتحاد ہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، ہم کل سے اپنا کام شروع کررہے ہیں، ہم ایک دن چین سے نہیں بیٹھ رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ جیسے انہی جماعتوں نے آپ کو ایم آر ڈی تحریک چلائی تھی اور اے آر ڈی کا موومنٹ چلائے تھے اب ہم اس سلیکٹڈ حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تحریک کیلئے نکل رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ نے ہمارا پورا پلان دیکھ لیا ہے کہ اکتوبر سے جنوری تک ہم کیا کیا کررہے ہیں، عدم اعتماد کا آپشن ہے، استعفوں کاآپشن ہے۔

اس کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جو اس پر ہوم ورک کر کے ، تجاویز مرتب کر کے پارٹی لیڈرز کے سامنے پیش کرے گی اور جو طے ہوجائے گا اسی کے مطابق عمل ہوگا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں ایک جمہوری آپشن سامنے رکھنا چاہئے، کسی ہم نے سلیکٹڈ وزیراعظم کوایک اور سلیکٹڈ وزیراعظم کے ساتھ ہم نے ایکسچینج نہیں کرنا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں تک ہماری تحریک کا تعلق ہے ہم اس کو آئی جے آئی کے بجائے ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کے ساتھ ملاتے ہیں،اسکے نتیجے میں میثاق جمہوریت آیا ہے، ہم نے انہی غلطیوں سے سیکھ کر اٹھارہویں ترمیم کی تھی، جمہوریت کو بحال بھی کیا تھا، ہم ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتے ہیں، ہم غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہیں۔ 

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ غیرجمہوری قوتوں کا جمہوری طریقے سے مقابلہ کیا ہے، میرے پاس کوئی بندوق نہیں ہے ہم بندوق کے زور پر نہ سیاست کرتے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں، ہم جمہوری طریقے سے غیرجمہوری قوتوں کو قائل کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم سب نے ماضی سے سبق سیکھے ہیں، آج آپ نے دیکھا کہ سب یہاں سنجیدگی سے ایک قومی کاز کیلئے بیٹھے ہیں۔ 

قبل ازیں اتوار کوپاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں مقا می ہو ٹل میں ہونے والی اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس سے اپنے ابتدائی خطاب میں سابق صدر نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور پھر ہم آہنگی کے ذریعے مشرف کو بھیجا، 18 ویں ترمیم کے گرد ایک دیوار ہے جس سے کوئی بھی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ 

انہوں نے کہاکہ جب سے ہم سیاست میں ہیں میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں نہیں دیکھیں، چاہے کتنی ہی پابندیاں لگائی جائیں، لوگ ہمیں سن رہے ہیں، حکومت اے پی سی کیخلاف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے یہی ہماری کامیابی ہے۔ سابق صدر نے تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صحت کیلئے دعا کی۔ 

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ اے پی سی بہت پہلے ہو جا نی چاہیے تھی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ملک کی بنیاد جمہوریت ہوتی ہے تو اسکے بعد خوشحالی آتی ہے۔ ایسے ہتھکنڈے تو مشرف دور میں بھی استعمال نہیں ہوئے جو مخالفین کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے پہلے ہی دن کہا کہ وزیر اعظم سلیکٹڈ ہے۔ مریم نواز نے بہت مشکلات برداشت کی ہیں میں مریم نواز کو سلام پیش کرتا ہوں اور ہم انکے ساتھ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس تقریر کے بعد مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ 18ویں ترمیم سے سب سے زیادہ حصہ پنجاب کو ملتا ہے۔ 

ہم اس سلیکٹڈ آفت سے پاکستان کو بچائینگے۔ میڈیا پر پابندیاں لگانا اتنا آسان نہیں ہے لیکن حکومت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے میڈیا کو پیمرا کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہےکہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں۔

ایک جمہوری ریاست بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم مصلحت چھوڑ کر فیصلے کریں،قوم کے حالات کی وجہ نااہل حکمرانوں کو مسلط کرنے والے ہیں، ووٹ کو عزت نہ ملی تو ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا، خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے، اولین ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔ 

اتوار کو مقامی ہو ٹل میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے ورچوئل خطاب کرتے ہو ئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔ 

ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا۔ قائد ن لیگ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔

نوازشریف نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟انہوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی،کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟ 

ان کا کہنا تھا کہ ووٹ سے بنا وزیراعظم کوئی قتل، کوئی پھانسی اور کوئی غدار قرار دیا گیا، منتخب وزیراعظم کی سزا ختم ہونے کو آہی نہیں رہی، یہ سزا عوام کو مل رہی ہے۔ اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نا ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا۔نوازشریف نے کہا کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

نتائج تبدیل نا کیے جاتے تو بے ساکھی پر کھڑی یہ حکومت وجود میں نہ آتی، انتخابات ہائی جیک کرنا آئین شکنی ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے۔نواز شریف نے سوال کیا کہ 2018 کے عام انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رہا؟ انتخابات میں دھاندلی کس کے کہنے پر کی گئی؟ اس کا سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری کو جواب دینا ہو گا۔

جو دھاندلی کے ذمہ دار ہیں انہیں حساب دینا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس نااہل حکومت نے پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دینے والوں نے لوگوں کا روزگار چھین لیا، سی پیک کنفوژن کا شکار ہے، کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔

اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نا ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے، ہم کبھی ایف اے ٹی ایف کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں، ایک غیر مقبول کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا، کیوں آج دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں؟ 

کیوں ہم تنہائی کا شکار ہیں؟انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیانات دیئے جس سے سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، ہمیں او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہےکہ اس وقت ملک میںصرف نام کی جمہوریت ہے ، مختلف حادثوں میں جمہوریت ڈی ریل ہوئی ، تین بار ڈکٹیٹرز نے جمہوریت پر کاری ضرب لگائی ، نواز شریف نے اپنےخطاب میں سیاسی تاریخ کا بھرپور احاطہ کیا۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جمہوریت صرف نام کی ہے 2018 کے الیکشن سے ایک سلیکٹڈ حکومت عمل میں آئی، سلیکٹڈ وزیراعظم نے دھاندلی کی تحقیقات کا وعدہ کیا تھا، الیکشن کے دوران آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا ، کمیٹی میں کام ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا، 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس کیسے بند ہوا؟ 

2018کے الیکشن کے بعد دیہاتوں کے نتائج تو آگئے مگر شہروں کے نہیں آئے ، تحقیقات کے لیے ہاوس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن کچھ نہ ہوا ، تحقیقات کے لیے ہاوس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن کچھ نہ ہوا ، انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ ہوئی ، کورونا سے قبل پاکستان کی معیشت کو شدید ضرب لگی ۔

اس سے بڑا وزیراعظم کا جھوٹ اور یو ٹرن کیا ہو سکتا ہے، وزیراعظم کہتے تھے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے، کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب نے تباہی مچادی ، عمران خان نے کہا تھا کہ وہ مرجائینگے مگرآئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے۔

آمریت کے باعث ہرشعبہ تنزلی کا شکاررہا، سلیکٹڈ وزیراعظم نےقوم سےوعدہ کیا تھا کہ آر ٹی ایس بندہونے کےمعاملےکی تحقیقات ہوگی، ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو توفیق نہ ہوئی کہ لوگوں کی امداد کرسکیں، احتساب کے نام پراندھا انتقام ہورہا ہے۔

حکومت نے عوامی فلاح کے کون سے منصوبے بنائےہیں ؟پوری قوم کی نظریں اے پی سی پرہیں کہ ہم کیا فیصلے کرتے ہیں ؟ ادویات کی قیمتیں کس نے بڑھائیں؟ حکومت کا احتساب نہ کیا اورخاموشی اختیارکی تویہ جرم بن جائے گا ہم اس کا حصہ بن جائیں گے، حکومت ہرلحاظ سے بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کےعوام معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور آج عوام ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ اس ملک میں اگر جمہوریت نہیں ہو گی تو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا۔ معاشرے میں کرائم بڑھتا جا رہا ہے اور منتخب نمائندے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے آواز نہیں سنی جاتی۔ 

ہماری کوشش تھی کہ بجٹ سے پہلے اے پی سی کروائیں۔ اے پی سی میں عوام بیانات اور قرارداد نہیں بلکہ ٹھوس لائحہ عمل چاہتے ہیں اور جب ملک میں جمہوریت نہیں ہوتی تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے۔ دو سال میں ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ نقصان ہوا اور ملک میں جرائم بڑھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاریخی بارشوں کے دوران عوام کو لاوارث چھوڑا گیا جبکہ ماضی میں قوم کو اس طرح کی آفات میں لاوارث نہیں چھوڑا گیا۔

ہم چاہتے ہیں ایک نیا میثاق جمہوریت ہو اور اس کو اپنا منشور بنا کر نکلنا ہو گا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمیں مطالبہ کرنا ہو گا کہ انتخابات میں ایک جیسے مواقع دینا ہونگے اور ہم سب ملکر عوام کو اس مصیبت اور عذاب سے آزادی دلوا کر رہیں گے۔ 

ہمیں اپنے ایوانوں کو آزاد کروانا پڑیگا اور اگر ہم یہ نہ کر سکے تو پھر ہم اپنی عوام کو کیسے یقین دلائیں گے کہ ہم انہیں اس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔جمعیت علما ء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہےکہ حکومت ہما ری آواز عوام میں جا نے سے روکتی ہے۔ 

مولانا فضل الرحمن نے اےپی سی میں اسمبلیوں سے استعفےاور سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کااعلان کیا جا ئے ہمیں آج ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہونگے، وزیراعظم سمیت اسمبلیاں جعلی اور میرے نزدیک سینیٹ چیئرمین بھی جعلی ہے۔

ہم نے مضبوط موقف کی طرف جانا ہے، آج پارلیمنٹ میں جو قانون سازی ہو رہی ہے کیا یہ بندوق کی زور پر نہیں ہو رہی؟ اگر اسلام بندوق کی زور پر ناروا ہے تو قانون بندوق کے زور پر کیسے روا ہے؟ ہم نے اب زبانی با تیں نہیں کرنی ہمیں تحریری بات کرنی ہوگی، میڈیا کو اتنا قید کردیا گیا ہے کہ وہ ہماری لاکھوں کے اجتماعات اور ہماری تقاریر نہیں دکھارہے انکو روکا جاتا ہے۔

آج ہی فیصلہ کرے کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائینگے، بنیادی بات یہ ہے کہ اب میں زبانی دعوؤں پر یقین نہیں رکھتا، اب آپ بہت کہیں گے کہ ہم لڑینگے لیکن آپ لوگ بہت پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

تازہ ترین