• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
اشرف المخلوقات مطلب روئے زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات میں سب سے اوپر درجہ رکھنے والی مخلوق ، اور اگر ہمیں یہ یاد ہو تو ہم انسانوں کو ہی یہ درجہ دیا گیا ہے ۔ ایسی افضل مخلوق جو تہذیب و تمدن میں سب سے اعلیٰ ہو۔ جو انسانی اقدار کو خوب سمجھتی ہو جسے عزت ملتی بھی ہو اور وہ عزت کرنا بھی جانتی ہولیکن کیا ایسا ہے بھی،کیا پانچ سالہ مروہ کے ساتھ اتنا ظلم کرنے والے اس درجے پر فائز کئے جانے کے قابل ہیں اور کیا سڑک پر اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں اپنے رشتے داروں کا انتظار کرنے والی عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو اشرف المخلوقات کہا جاسکتا ہے،جب عورت میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرتی ہے تب اسے بے حیا آزاد خیال بے کردار کہا جاتا ہے۔اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی خواہشمند پر انگلی سب اٹھا سکتے ہیں لیکن جب اسی عورت کے ساتھ کوئی غیر مرد زیادتی کرتا ہے تب اس مرد کو سزا دینا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے ۔اپنی من مرضی سے لباس کا انتخاب بھی گھر خاندان سے بغاوت ہے تو پھر زبردستی بے آبرو کرنے والا کون سے خاندانی نظام کا علمبردار ہوتا ہے۔قمیض ٹھیک کرو ،پیر بند کر کے بیٹھو والی نصیحتیں کرنے والے کبھی کسی مرد کو کہتے ہیں کہ نظریں نیچی کرو،بھلا مردوں کے معاشرے میں مردوں کو کوئی کیا کہہ سکتا ہے، ایسا تو نہیں کہ سارے ہی مرد ایک جیسی فطرت کے حامل ہیں لیکن جس معاشرے میں بچی بالغ جوان ادھیڑ عمر ہر عمر کی عورت کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر درپر ہوں تو وہاں کے سب مردوں کو ایک ہی ترازو میں تولا جائے گا ۔یہاں برطانیہ میں رہتے ہوئے دن ہو یا رات کبھی باہر جانے میں خوف محسوس نہیں ہوا لیکن مادر وطن میں دن کے وقت بھی اکیلے نکلنا مشکل لگتا ہے کیونکہ ایک ڈر لوٹ مار کرنے والے سے محسوس ہوتا ہے دوسرا عزت جانے کا خطرہ ،حالانکہ ایسا بھی نہیں کہ یہاں بلا ضرورت بے وقت کے باہر جاتے ہوں لیکن ضرورت کے وقت بھی بنا کسی خوف کے کہیں بھی چلے جاو کوئی پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ یہاں کا نظام عوام کو بنا جنسی تفریق کے یہ سہو لت دیتا ہے کہ سکون سے بنا کسی خوف کے رہو۔یہاں عورت کا چھوٹا یا بڑالباس اس کے کردار کی تشریح نہیں کرتا ۔ نا ’اکیلی ہے‘ کا مطلب آسان شکار ہوتا ہے، یہاں نظام ہے، قانون ہے ،گناہ گار کے لئے سزائیں ہیں اور مظلوم کو انصاف ملتا ہے ۔ یہاں قانون بڑے یا چھوٹے کی بنیاد پر کاروائی نہیں کرتا بلکہ مجرم کو سزا دینا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اولین فرض ہوتا ہے ۔جن معاشروں میں نہ سزائیں دی جاتیں ہوں اور صنفی تفریق بھی موجود ہووہاں یہ کہنا بھی بالکل مناسب نہیں ہو گا کہ یہاں جنگل کا قانون رایج ہے کیونکہ یقینا جنگل میں بھی اتنا ظلم شاید ہی کسی کے ساتھ ہوا ہوگا جیسا مادر وطن میں سننے میں آرہا ہے۔
تازہ ترین