ماہرین فلکیات نے حال میں کرنے والے تحقیق سے یہ اندازہ لگا یا ہے کہ ہماری کہکشاں میں ’’یتیم سیارے ‘‘کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔یتیم سیارے وہ ہوتے ہیں جو کسی ستارے کے گرد چکر نہیںلگاتے بلکہ وہ خلاء میں آزاد پھیرتے رہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق اب تک ملکی وے کہکشاں میں ستاروں کی تعداد 100 ارب سے لے کر 400ارب تک ہے ۔اس تحقیق کے مطابق اوہا یو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے تخمینہ لگا یا ہے کہ ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں میں یتیم سیاروں کی تعداد 400 ارب سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے ۔یہ یتیم سیارےکیسے بنتے ہیں؟
ان کاکوئی ثابت شدہ سائنسی نظریہ موجود نہیں۔امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’’ناسا‘‘ کی ’’نینسی گریس رومن خلائی دوربین‘‘ جو 2025 تک خلاء میں بھیجی جائے گئ ، یہ دوسرے ستاروں کے گرد سیارے ڈھونڈنے کے علاوہ یتیم سیاروں کی تلاش بھی کرے گی۔ اس مقصد کےلیے یہ اپنے حساس آلات استعمال کرتے ہوئے ’’مائیکرولینسنگ‘‘ نامی قدرتی مظہر سے استفادہ کرے گی۔ماہرین کو امید ہے کہ یہ دوربین سیکڑوں کی تعداد میں یتیم سیارے دریافت کرلے گی، جس کے بعد یتیم سیاروں کی تخلیق کے بارے میں مفروضات کی تصدیق باآسانی کی جاسکے گی۔
یتیم سیاروں کے بارے میں ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ آج سے کروڑوں اربوں سال پہلے یہ بھی ستاروں کے گرد باقاعدہ گردش کررہے تھے لیکن پھر، شاید اپنے ستاروں کے ختم ہوجانے یا ان کی قوتِ ثقل (گریویٹی) بہت کمزور پڑجانے کی وجہ سے، یہ اپنے مداروں سے آزاد ہو کر خلا میں اِدھر سے اُدھر آزاد پھیرنے لگے۔قدرے بڑی جسامت اور زیادہ کمیت والے یتیم سیاروں کے بارے میں خیال ہے کہ شاید کسی نظامِ شمسی کے بالکل ابتدائی زمانے میں اپنے ستارے کی کشش سے آزاد ہوگئے ہوں گے اور انہوں نے اپنی تخلیق و تشکیل کے باقی مراحل ایک یتیم سیارے کی حیثیت ہی سے مکمل کیے ہوں گے۔
ناسا کی نینسی گریس رومن خلائی دوربین کی تیاری میں اس ضرورت کو بھی بطورِ خاص مدِنظر رکھا گیا ہے کہ 1998 سے لے کر اب تک 20 یتیم سیارے ہی دریافت ہوئے ہیں ،جب کہ ان میں سے بھی صرف دو سیارے ایسے ہیں جنہیں مصدقہ طور پر یتیم سیارے تسلیم کیا گیا ہے۔ باقی 18 کا شمار امیدوار یتیم سیاروں میں کیا جاتا ہے، جن کے بارے میں فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔