• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

نیا کراچی: کراچی کی تعمیر نو کیسے؟
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب
ترجمان سندھ حکومت،
مشیر قانون و ماحولیات و 
ساحلی ترقی

کراچی میں کوئی ایک ادارہ کام نہیں کرتا کراچی کے کچھ علاقے وفاق کے پاس بھی ہیں،اگر اس پیکج کو بہتر استعمال کرتے ہیں تو اس سے بہت فرق پڑے گا۔ گیارہ سو ارب میں آٹھ سو ارب سندھ حکومت کے شامل ہیں،بحریہ ٹاؤن کے پیسوں پر سندھ حکومت نے درخواست دائرکر رکھی ہے اور تاحال فیصلہ نہیں ہوا ،ریڈ لائن ماس ٹرانزٹ اسیکم ،ملیر ایکسپریس وے پر کام شروع ہونےوالا ہے

بیرسٹر مرتضیٰ وہاب

میگا سٹی کے رہائشیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا اور شہر سے کچی آبادیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا، 

نیا کراچی: کراچی کی تعمیر نو کیسے؟
محسن شیخانی
چیئرمین، ایسوسی ایشن
آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز

ٹریفک کے مسائل حل کرنے لیے رنگ روڈز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے،کراچی کے تمام روڈز،گھریلو ،کمرشل زمینوں، دکانوں، مکانوں، پٹرول پمپوں،ہسپتالوں اور دیگر کا نیا سروے کرانا انتہائی ضروری ہے،ملازمتوں کی فراہمی کے لیے کراچی میں اسپیشل اکنامک زون تعمیر کیا جائے

محسن شیخانی

تمام شہری ادارے میئر کو رپورٹ کریں، جسے کراچی کے عوام براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب کریں۔ 

نیا کراچی: کراچی کی تعمیر نو کیسے؟
محمد اظفر احسن
بانی، کارپوریٹ
پاکستان گروپ

پولیس، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، کے پی ٹی، پاکستان ریلویز، پورٹ قاسم اتھارٹی، بحریہ ٹائون، کنٹونمنٹس ،ڈی ایچ اے، ایس بی سی اے، کے ڈبلیو ایس بی جیسی تمام شہری خدمات کے ایم سی فراہم کرے۔ شہری کی آبادی کے درست مردم شماری کی جائے، کراچی واحد ضلع کے طور پر چلے

محمد اظفر احسن

ترقیاتی پیکیج کی مانیٹرنگ کے لیے سول سوسائٹی یا کسی پروفیشنل ادارے کی نمائندگی نہیں، نئے منصوبے کی لاگت، منصوبہ کون بنا رہا ہے،

نیا کراچی: کراچی کی تعمیر نو کیسے؟
عارف حسن
بانی چیئرمین،
اربن ریسورس سینٹر

کون ذمہ دار ہے، کب منصوبہ مکمل ہوگا، مکمل ہونے کے کتنے عرصے تک کون افسر یا ادارہ اس منصوبے کے معیار سے متعلق ذمہ دار ہوگا ان سب باتوں کی مکمل یقین دہانی کرائی جائے،کراچی کی کی ترقی کیلئے وفاق اور صوبائی حکومت کومسلسل وسائل مہیا کرنے چاہیے

عارف حسن

محسن شیخانی

چیئرمین، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ پیکج بنیادی طور پر پانی کی فراہمی،کراچی شہر کی تزائین وآرائش،تباہ شدہ حال نکاسی وفراہمی آب کا نظام اور حستہ حال سڑکوں کی تعمیر نو کے گرد گھومتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کے کراچی کے رہنے والوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے بھی حکومت کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو مخلصی کا اظہار کرتے ہوئے اس میگا سٹی کے رہائشیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور شہر سے کچی آبادیوں کا خاتمہ کرنا ہوں گا۔ کراچی شہر جو 55 فیصد کچی آبادی پر مشتمل ہے۔کچی آبادیاں امن وامان کی صورتحال کے لیے بھی خطرہ ثابت ہورہی ہیں ۔ کچی آبادیاں منشیات فروشوں،اسٹریٹ کرمنلز اور دیگر برائیوں کا گڑھ بن چکی ہیں۔

حالیہ کراچی آپریشن کے دوران بھی یہ حقیقت واضح ہوئی کہ کچی آبادیوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی رسائی نہ ہونے کے باعث کچی آبادیاں جرائم پیشہ افراد کے لیے محفوظ پناہ گناہیں بنی ہوئی ہیں۔آباد نے کچی آبادیوں کو ماڈل شہر بنانے کیلیے بارہا حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں لیکن افسوس حکومت نے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔آباد کی خواہش ہے کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو بے گھر کیے بغیر ورٹیکل تعمیرات کرکے انھیں عالمی معیار کی رہالئشی سہولت فراہم کی جائے۔کراچی دنیا کا دسواں بڑی شہر ہونے کے باوجود بلدیاتی سہولتوں سے محروم ہے۔

1 ؛کراچی کی سڑکوں کا نیٹ ورک متروک ہوچکا ہے ۔ اسی لیے کراچی کی سڑکوں کا دوبارہ سروے کیا جانا چاہیے۔موثر منصوبہ بندی کا فقدان اور محدود وسائل کے باعث کراچی شہر میں ٹریفک جام ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ،بالخصوص بارشوں کے دوران ٹریفک جام کا مسئلہ مزید بدتر ہوجاتا ہے جسے حل کرنے کے لیے ایک جامعہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔آباد کی تجویز ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کی شکار اہم شاہراہوں کو رات کے اوقات میں مرمت کرانے کے کام کرائے جائیں۔دن کے اوقات میں مرمتی کاموں سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ کو اہم شاہراہوں کی رات میں مرمت کے لیے ذمے داری سونپی جائے۔

2 : کراچی کی آبادی میں روزانہ کی بنیاد پر تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شہر میں ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے۔لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد ٹریفک کے دبائو میں کچھ حد تک کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی ہمیں ٹریفک کے مسائل حل کرنے لیے رنگ روڈز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

3 ۔کراچی کے مسائل جاننے اور انھیں حل کرنے کیلیے کراچی کا نیا سروے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کراچی کے تمام روڈز،گھریلو ،کمرشل زمینوں ،دکانوں ،مکانوں ،پٹرول پمپوں،ہسپتالوں ودیگر کا نیا سروے ہونا انتہائی ضروری ہے ۔نیا سروے ہونے کے بعد کراچی کے سوک اداروں کو مالی فوائد کے ساتھ ساتھ نئی منصوبہ بندی میں بھی معلومات حاصل ہوسکیں گے۔

4:کراچی میں زمینوں پر قبضوں کے واقعات کو روکنے،لینڈ مافیا پر قابو پانے اور قانون پسند شہریوں کو پرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ زمینوں کے تمام ریکارڈ کو درست کرکے زمینوں کی ملکیت کو تسلیم کریں۔ زمینوں کا درست اور کمپیوٹرائزڈ نہ ہونے سے بلڈرز،دیولپرز اور عام شہریوں کو سنگین نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ جب بلڈر زمین خریدتا ہے تو وہ یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ زمین فروخت کرنے والا شخص حقیقی الاٹی ہے اور اس کی تصدیق متعلقہ محکمہ سے بھی حاصل کرتے ہیں۔لیکن ایک دن ایسا آرڈرآجاتا ہے کہ پروجیکٹ کی الاٹمنٹ غیر قانونی تھی اس لیے اسے فوری مسمار کیا جائے۔اس آرڈر سے افرا تفری پیدا ہوجاتی ہے اور جن لوگوں نے بکنگ کرائی ہوتی ہے وہ زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کے خدشات سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔سب سے زیادہ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ زمین کی مبینہ الاٹمنٹ میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی الاٹمنٹ کا اجرا کرنے والے محکمے (محکمہ ریونیو ودیگر) ان الاٹمنٹس کا کوئی جواز پیش کرتے ہیں اور نہ ہی خود ہی منظور کی گئی الاٹمنٹ کا دفاع کرتے ہیں اور الاٹیز(بلڈرز اور ڈیولپرز) کو عدالت کے سامنے بے یار ومددگار چھوڑدیتے ہیں۔ حکومت لینڈ ریکارڈ کو درست کرکے کمپیوٹرائز کرے تو اس سے لینڈ مافیا پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عام شہریوں کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔غیر ملکی بلڈرز اور ڈیولپرز بھی کراچی میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے لیکن زمینوں کے کمپیوٹرائزڈ نظام نہ ہونا رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

5 :تمام ریگولیٹری اتھارٹیز کو چاہیے کہ غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے اور لیگل تعمیرات کے لیے فوری منظوری دی جائے۔

آباد کے ممبر بلڈرز پاکستان کے مختلف شہروں اسلام آباد،کراچی ،حیدرآباد ،لاہور،پشاور اور دیگر شہروں میں متعلقہ اداروں کے مجوزہ قوانین کے مطابق تعمیراتی کام کررہے ہیں۔اس کے برعکس آباد تو غیر قانونی تعمیرات کے سخت خلاف ہے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے بالخصوص کراچی شہر قانون توڑنے والے عناصر اور متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے غیر قانونی تعمیرات کا گڑھ بن چکا ہے۔قانون شکن عناصر اور متعلقہ افسران کے گٹھ جوڑ نے تعمیراتی شعبے کو بدنام کیا ہے ۔

لیکن غیر قانونی تعمیرات میں مصروف ان کرمنلز کے خلاف کوئی بھی ادارہ کارروائی کرنے کو تیا ر نہیں ہے اور یہ قانون شکن عناصر دھڑلے کے ساتھ غیر قانونی طور پر,60,80 30,40 گز کے پلاٹوں پر پورشنز اور کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے ذریعے کراچی کے معصوم شہریوں سے لوٹ مار کررہے ہیں۔آباد نے کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ کوالی فائیڈ انجینئر ز کے مشورے کے بغیر ناقص مٹیریل سے تعمیر شدہ یہ عمارتیں کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجے میں خدا نا خواستہ منہدم ہوگئیں تو اس کے نتیجے میں صرف کراچی میں 10 لاکھ افراد کی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔

اس ضمن میں ہم نے وزیراعلیٰ سندھ ،چیف سیکریٹری سندھ اور چیئرمین نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی غیر قانونی اور ناقص مٹیریل سے بنی عمارتوں سے آنے والی تباہی سے پیشگی آگاہ کرچکے ہیں۔غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر در پردہ 6 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے صرف گرائونڈ پلس ون عمارت کی تعمیر کا پلان منظور کراتے ہیں جبکہ قانون میں یہ واضح ہے کہ منظور شدہ پلان سے زیادہ تعمیر غیر قانونی ہے یہ قانون شکن عناصر جو غیر قانونی تعمیرات سے معصوم شہریوں سے پیسے بٹور رہے ہیں اصل میں مافیا ہیں اور انھیں کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے۔اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی کی بھی گئی ہے تو وہ دکھاوے کی حد تک رہی اور غیر قانونی تعمیرات میں ملوث کوئی بھی پکڑا نہیں گیا ۔ 

کراچی میں مسلسل عمارتوں کے منہدم ہونے اور اس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع نے آباد کے غیرقانونی عمارتوں کی تعمیرات کے حوالے سے خدشات کو سچ ثابت کیا ہے۔ ہم حکا م سے گزارش کرتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان واقعات کا فوری نوٹس لے کر نہ صرف زندگی بھر کی کمائی سے بننے والی عمارتوں بلکہ ان عمارتوں کو تعمیر کرنے والے عناصر اور انھیں تحفظ دینے والے افسران جو معصوم لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

6 ؛ وزیر اعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کے نام سے کم لاگت گھروں کی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔آباد کی تجویز ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو سستے گھروں کی سہولت دینے کے لیے سرجانی کے اطراف 20 ہزار ایکڑ اراضی پر معیاری رہائشی سہولتوں کے ساتھ ہائوسنگ اسکیم کا اعلان کرے۔

7 :کراچی میں حالیہ موسلا دھار بارشوں نے سیوریج نظام کی قلعی کھول دی ہے ۔بدترین سیوریج نظام کے باعث لوگوں کے گھروں میں برساتی پانی داخل ہوگیا تھا اور کئی کئی روز تک سڑکوں پر پانی کھڑا رہا جس سے کراچی کے شہری شدید ذہمی اذیت میں مبتلا رہے۔میڈیا میں نجی ہائوسنگ اسکیم میں بھی برساتی پانی جمع ہونے کی خبریں نشر ہوتی رہی ہیں،اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مستقبل میں اس طرح کی ہائوسنگ اسکیموں کا سروے کرے اور سیوریج نظام کی نگرانی کرے تاکہ ان اسکیموں میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے الاٹیز ایسے مسئلے سے دوبارہ دوچار نہ ہوں۔

8 :ملازمتوں کی فراہمی کے لیے کراچی میں اسپیشل اکنامک زون تعمیر کیا جائے۔وسیع پیمانے پر صنعتوں کے باعث کراچی قومی خزانے کو 70فیصد ریونیو دینے والا شہر ہے ۔کراچی کے شہریوں اور ملک کے دیگر حصوں سے روزگار کے لیے کراچی آنے والوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے آباد کی تجویز ہے کہ کراچی میں 10 ہزار ایکڑ اراضی پر ایکسپورٹ کرنے والی صنعتوں اور پاکستان کے درآمدی مال کی صنعتوں کے لیے اسپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے ۔اس اسپیشل زون سے پاکستان کا درآمدات پر انحصار بھی کم ہوجائے گا۔اسپیشل زون میں صرف ان صنعتکاروں کو پلاٹ الاٹ کیے جائیں جوفوری کام شروع کرسکیں۔جرائم کے خاتمے کے لیے عام افراد کو روزگار کی فراہمی بہترین ہتھیا ر ہے۔.

محمد اظفر احسن

بانی، کارپوریٹ پاکستان گروپ

کراچی مختلف کے افراد کے رہائش پزیر ہونے کی وجہ سے نہ صرف منی پاکستان ہے بلکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ کراچی پاکستان کا حقیقی طور پر سب سے بڑا شہر ہے۔ علاوہ ازیں اس شہر کی تزویراتی اہمیت بھی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں ملک بھر میں موجود نسلی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کی بھرپور نمائندگی موجود ہے اور ایسا پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں۔ یہ ملک کا معاشی مرکز ہے اور یہاں قائم صنعتوں کی وجہ سے یہ ملک میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ملک بھر سے لوگ بہتر معیار زندگی کی تلاش میں آتے ہیں۔ 

کراچی ملک میں ہونے والی کسی بھی قسم کی پیش قدمی میں، چاہے وہ سائنس سے بزنس اور سیاست سے ثقافت تک کسی بھی شعبے میں ہوئی ہو، ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے اور اس شہر نے ہر شعے میں نئے رجحانات قائم کیے ہیں۔ پورٹ سٹی ہونے کے ناتے کراچی ملک بھر کی صنعتوں، تجارت اور فنانس کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے شہر کی تزویراتی اور سلامتی اعتبار سے بھی اہمیت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک کے حال اور مستقبل کا دارومدار کراچی ہی پر ہے اور کراچی میں کسی بھی قسم کی بے چینی و انتشار کے پورے ملک پر ناقابل برداشت اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ 40برس سے کراچی نے صرف دیا ہے اور بدلے میں اسے کچھ ملا نہیں، جن میں بنیادی سہولتیں بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کراچی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور مزید اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بقول قابل اجمیری؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں/ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ 

کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، جسے کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اس وقت کراچی وینٹی لینٹر پر ہے اور اپنے پیاروں کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہا ہے۔ اس کڑے وقت میں ’’کارپوریٹ پاکستان گروپ‘‘ نے، جو ملک میں انٹیلی جنشیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، تزویراتی (اسٹریٹجک)اور قومی اہمیت کے موضوعات پر مباحثے کا اہتمام کیا۔ یہ گروپ اپنے پیش کردہ حل اور سفارت کے ذریعے حکومت کی مدد کرتا ہے۔ اسی طرح سی پی جی نے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کراچی پر سیمینارز، مباحثے اور دیگر پروگراموں کا انعقاد کیا ہے۔ کراچی میں مون سون کی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد سی پی جی نے کراچی کی ترقی پر ایک قومی مباحثے کا اہتمام کیا، جس میں ملک کی تمام بڑی مرکزی جماعتیں، اربن ٹائون پلاننگ کے ماہرین اور سابق اور موجودہ گورنر سندھ شریک ہوئے۔ 

اس مباحثے کے نتیجے میں شہر کے بنیادی چیلنجز کو سمجھنے اور بعض کلیدی سفارشات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد ملی۔ سی پی جی میں حال ہی میں اعلان کیے گئے ’’ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کا خیر مقدم کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ میثاق میں بیان کی گئی اصلاحات کے بغیر کوئی بھی پلان یا پیکیج ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ متعدد مباحثوں، مکالموں اور قومی سطح کے ڈائیلاگ کی بنیاد پر کیے گئے میثاقِ کراچی کی سفارشات کچھ یوں ہیں کہ کراچی کے اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کو قبول کر لینا چاہیے کہ اس شہر کو ایک چھتری کے نیچے آنا چاہیے اور کراچی کے میئر کو دنیا کی دوسری میگا سٹیز کی طرح اختیارات ملنے چاہئیں۔ 

تمام شہری اداروں کو میئر کو رپورٹ کرنا چاہیے، جسے کراچی کے عوام براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب کریں۔ پولیس، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، کے پی ٹی، پاکستان ریلویز، پورٹ قاسم اتھارٹی، بحریہ ٹائون، کنٹونمنٹس اور ڈی ایچ اے، ایس بی سی اے، کے ڈبلیو ایس بی جیسی تمام شہری خدمات کے ایم سی فراہم کرے۔ شہری کی آبادی کے درست اعدادوشمار سامنے آئے بغیر کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی ناممکن ہے۔ شہر میں وسائل کی تقسیم کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی یقینی ہو جائے گی۔ میٹروپولیٹن حکومت کو با اختیار بنانے کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومت کی معاونت سے حکام کو کراچی کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کو سنوارنا چاہیے۔ 

اس میں ماس ٹرانزٹ (کراچی سرکلر ریلوے/ میٹرو لائنز) سیوریج سسٹم، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، روڈ انفرااسٹرکچر، واٹر اینڈ پاور اسٹرکچر اور کے الیکٹرک شامل ہیں۔ اسی طرح شہری حکومت کو اس بات کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ آکڑائے، شہری ٹیکسز، ٹریفک کے جرمانوں، کار رجسٹریشن اور سرکاری خدمات وغیرہ سے اپنے آمدنی میں اضافہ کر سکے۔ کراچی میں ایک سخت احتسابی نظام کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ ہمارے شہری ادارے کرپشن زدہ ہیں۔ کچی آبادیوں کی بجائے شہریوں کو قابل برداشت، صاف ستھری اور با وقار رہائش فراہم کرنے کے لیے کم قیمت کے گھروں کی تعمیر ایک طریقہ ہے۔ موجودہ صنعتی علاقوں کی عالمی معیار کے مطابق تعمیر و مرمت کی جائے۔ سرکاری وسائل کے بہتر استعمال، سرکاری شعبے میں ہنر مندی، روزگار کی پیداوار، سی ایس آر کے تحت مختلف منصوبوں کو گود لینے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ گیم چینجر ثابت ہو گی۔ 

کراچی کے حقیقی تنوع کا سیاسی مقاصد کے لیے استحصال کرنے کی بجائے اس پر مسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ شہر کراچی کے وسیع تر مفاد کے لیے شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی سیاسی وابستگیوں اور مفادات سے اوپر اٹھنا ہو گا۔ اس پورے میثاق کا دارومدار اس بات پر ہے کہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔ ہم ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہیں، جو ایک مقررہ مدت، یعنی 3سے 5ماہ تک، ایک کیئر ٹیکر کے طور پر خدمات انجام دیں گے اور اس عرصے میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کسی قسم کی تاخیر سے شہر میں بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ 

صوبہ سندھ کے اندر وسائل کی مساوی تقسیم کے لیے نیشنل فنانس کمشین کے طرز پر ایک پراونشل فنانس کمیشن بھی لاگو کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی میٹرو پولیٹن اپنے تعلیم و صحت کے نظام اور تفریحی مقامات کو بہتر بنائے بغیر ایک نمونہ نہیں بن سکتا۔ کراچی میں ان تمام شعبہ جات میں محرومیاں پائی جاتی ہیں، جس سے نوجوانوں کے ذہن اور جسم پر گھنائونا اثر مرتب ہوا ہے۔

 گزشتہ 40 برس سے رائج کوٹا سسٹم صوبے کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کے شہریوں کے ساتھ ایک بڑی نا انصافی ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرے صوبوں میں رائج قوانین سے متصادم بھی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اسے لاگو بھی نہیں کیا جاتا۔ کوٹا سسٹم کو ختم کرتے ہوئے میرٹ، شفافیت اور انصاف کو بحال کیا جائے۔ علاوہ ازیں شہری اور دیہی سندھ کے درمیان ثقافتی تبادلہ بھی ضروری ہے۔ سندھ کی ثقافت، روایات، صوفی ورثہ، تاریخ اور تاریخی و مذہبی مقامات میں سیاحت کے حوالے سے بہت سارے مواقع پوشیدہ ہیں۔ اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان روابط، ثقافتی تقاریب اور روایات کے تبادلے سے مدد مل سکتی ہے۔ 

علاوہ ازیں اس قسم کے تبادلوں سے تمام کمیونٹیز ایک دوسرے کے قریب آئیں گی اور افواہیں جنم لینے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، جن کی وجہ سے بد قسمتی سے تقسیم پیدا ہوئی ہے۔ دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی کو ایک واحد ضلع کے طور پر چلانا چاہیے، نا کہ سات اضلاع کے ساتھ، جن کے ایجنڈے اور پالیسیز ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ آخری بات یہ ہے کہ اس وقت ایک آئینی و قانونی فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان تمام امور کی یقینی بنا جا سکے، جب کہ اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے ثمرات کے طور پر وسائل اور اختیارات کی نہ صرف سٹی گورنمنٹ کی سطح پر بلکہ ضلعی کونسل اور یونین کونسل کی سطح پر بھی منتقلی ہو۔ 

میرا اور سی پی جی کا ماننا ہے کہ اب ایکشن لینے کا وقت آن پہنچا ہے اور ہمیں اس بات کا موقع ملا ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک تابناک ورثہ چھوڑ کر جائیں، جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں۔ اس شہر کے متعلق خوبصورت داستانوں کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ کراچی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے پکار رہا ہے، لیکن اب اس میں مزید توانائی نہیں رہی۔ میں یہاں ساغر صدیقی کا یہ شعر سنانا چاہوں گا کہ ؎وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں/ انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے۔ میثاقِ کراچی کے حوالے سے سی پی جی نے ایک ایکشن پلان بنایا ہے۔ ملک کے ایک با اثر تھنک ٹینک کے طور پر سی پی جی کراچی کے دوسرے اسٹیک ہولڈرز بزنس مین، تعلیمی اداروں، پروفیشنل باڈیز، این جی اوز، بار ایسوسی ایشنز، مارکیٹ کمیٹیز، نیشنل آئیکنز وغیرہ کو ایک قومی مقصد کے لیے متحرک کرے گی۔ سی پی جی اس موضوع پر مذاکرت، مباحثے اور مکالمے کے اہتمام اور انہیں سہولت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

عارف حسن

بانی چیئرمین، اربن ریسورس سینٹر

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کی موجودگی میں کراچی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے تین سالہ 2023-2020 کے لئے 1113 بلین روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ ان ترقیاتی منصوبوں میں نکاسی آب، فراہمی آب، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ جیسے اہم منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ کراچی پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ یہ کبھی پاکستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا اور اب یہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ کراچی دنیا کے پانچ بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ کراچی شہر ایک میگا سٹی ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہے۔ 

چھ کنٹونمنٹس بورڈز اس کی حدود میں واقع ہیں اور سات اضلاع جنوبی، مغربی، شرقی، ملیر، وسطی، کورنگی،کیماڑی پرمشتمل ہے۔ کراچی ڈویژن کی آبادی دو کروڑ 20 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس شہر میں کچھ دیہی آبادی ہے اور باقی شہری آبادی پرمشتمل ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل بھی ہے اور کنٹونمنٹ بورڈز کے اپنے نمائندے بھی ہیں۔ کراچی شہر میں پاکستان ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم واقع ہے۔ کراچی کے چار بڑے اکنومک انڈسٹریل زونز سائٹ ایریا،کورنگی، نارتھ کراچی، پورٹ قاسم بھی عوام کو روزگار مہیا کر رہے ہیں۔ کراچی پورے ملک کے لئے روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 

کراچی پاکستان کی معیشت میں% 68 فیصد حصہ دیتا ہے جب کہ کراچی سے% 78 فیصد غیر رسمی ملازمتوں کے مواقع عوام کو مہیا کرتا ہے۔کراچی میں وہ تمام اکائیاں رہتی ہیں جو پورے ملک میں آباد ہیں۔ یہاں بلوچ، سندھی، پختون، پنجابی، میمن، افغانی، بنگالی سب رہتے ہیں۔ کراچی پورا پاکستان ہے۔ کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔ کراچی رات کو بھی جاگتا ہے۔ یہاں چوبیس گھنٹے، سات دن، 365 دن کام ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود کراچی شہر کے نالے سڑکیں 240 ملی میٹر بارش برداشت نہیں کرسکے۔ اگست کے آخر میں ہونے والی ان بارشوں کا پانی آج بھی کچھ علاقوں میں کھڑا ہے۔ جس کی وجہ سے مچھر پیدا ہو رہے ہیں۔ 

یوسف گوٹھ سرجانی اس کی ایک مثال ہیں۔ 240 ملی میٹر بارش ہو چکی آئندہ بھی ہوگئی اب عوام کو اور متعلقہ شہری اداروں کو اس کا مقابلہ کرنا ہے ہمیں مون سون کے موسم کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیاریاں کرنا ہوں گی اور بارشوں میں وہمقامات جہاں سے نکاسی آب میں رکاوٹوں کی نشاندہی ہوئی ان کو ترجیح بنیادوں پر صاف کرکے نکاسی آب کے لئے راستہ بنانا ہوگا۔ فراہمی آب کے 4-K منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جا ئے اور وہ پانی جو شہر میں رساوکا شکار ہو جاتا ہے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ 

اس کو بچا کر بھی سو ملین گیلن سے زائد پانی شہریوں کو مہیا کیا جا سکتا ہے اس منصوبے پر زیادہ خرچہ بھی نہیں ہوگا، شہریوں کو صاف پانی بھی ملے گا اور پانی بھی شہریوں کی موجودہ سپلائی ہی میں شامل ہو جائے گا۔سالڈ ویسٹ کا مسئلہ شہر کا آج سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ شہر میں ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے۔ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ اور چائنیز کمپنی شہر کے اس مسئلہ کے حل کے لیے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر پائی اور نہ ہی ان کی کارکردگی نظر آرہی ہے۔ سڑکوں کے کناروں پر گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن بنا دیے گئے ہیں گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن بنانے کے لیے جو قواعد و ضوابط ہیں ان پر کوئی عمل نہیں ہو رہا۔ 

کچرا آج بھی سڑکوں پر پڑا رہتا ہے۔ کھلی گاڑیوں میں کچرا اٹھایا جارہا ہے جو کہ شہید ملت روڈ اور شیر شاہ سوری روڈ پر دیکھا جا سکتا ہے۔یہ کچرا ہوا میں چلتی گاڑیوں سے اُڑ کر دوبارہ سڑکوں پر گرتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ترقیاتی پیکج کے تحت موجودہ دو لینڈ فل سائٹس کے ساتھ ساتھ کم سے کم تین مزید لینڈ فل سائٹس ملیر، لانڈھی، کلفٹن، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور بن قاسم کے علاقوں کے لیے بنائی جائیں۔ اس ترقیاتی پیکیج کی مانیٹرنگ کے لیے جو ابھی نگراں کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں سول سوسائٹی یا کسی پروفیشنل ادارے کی نمائندگی نہیں ہے اس کو ممکن بنایا جائے۔جو ترقیاتی منصوبے شروع ہونگے یا جو منصوبے چل رہے ہیں اُن منصوبوں کی افادیت سے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ منصوبوں سے متعلق سول سو سائٹی کو بتایا جائے۔ 

منصوبوں کی متعلقہ فورم سے منظوری لی جائے۔ منصوبوں کا E.I.A کروایاجائے۔ متعلقہ کمیونٹی کی شراکت کو لازمی منصوبوں کا حصہ بنایا جائے۔ نئے منصوبے کی لاگت۔ منصوبہ کون بنا رہا ہے۔ کون ذمہ دار ہے۔ کب منصوبہ مکمل ہوگا، مکمل ہونے کے کتنے عرصے تک کون افسر یا ادارہ اس منصوبے کے معیار سے متعلق ذمہ دار ہوگا ان سب باتوں کی مکمل یقین دہانی کرائی جائے۔ ابھی دیکھیں ڈرگ انڈر پاس اور کے پی ٹی انڈر پاس، کریم آباد فلائی اوور اور ڈرگ روڈ سے گلستان جوہر جانے والا فلائی اوور تکمیل کے کچھ ہی عرصے میں غیر معیاری ہونے کی وجہ سے شہریوں کے لیے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ اب ان منصوبوں کی کوئی ذمہ داری نہیں لے گا۔

کراچی کی کی ترقی کیلئے وفاق اور صوبائی حکومت کومسلسل وسائل مہیا کرنے چاہیے۔ کراچی ان دنوں کو وسائل مہیا کرتا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی ادارے کو خودمختار اور مالی وسائل سے مالا مال ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کے ایم سی کو شہر کے اندر ٹیکس جمع کرنے کا اختیار دیا جائے، روڈ ٹیکس میں کراچی کو اُس کا حصہ دیا جائے۔ اس پیکیج کے منصوبوں کی زد میں جو آبادیاں آئیں گی ان متاثرین کی آبادکاری کے لئے ایک واضح پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پیکج کے منصوبوں کی مانیٹرنگ ہی منصوبوں کے معیار اور ان کی بروقت تکمیل کی ذمہ دار ہوگی گی۔

بیرسٹر مرتضیٰ وہاب

ترجمان سندھ حکومت ،مشیر قانون و ماحولیات و ساحلی ترقی

حالیہ بارشوں سے پاکستان بھر میں تباہی ہوئی ہے صرف سندھ کے بیس اضلاع میں بارشوں نے تباہی مچائی ہے اب سندھ حکومت نے ان اضلاع کو آفت زدہ قراردیا گیا ہے تاکہ ریلیف کے کاموں کو کیا جاسکے اور وفاقی حکومت کی توجہ بھی ان آفت زدہ علاقوں کی طرف مبذول کروا سکیں ۔ سن دو ہزار دس اور گیارہ میں متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیگر امداد دی گئی اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں اور نقصانات کا جائزہ اور عوام کی داد رسی کرتے ہوئے میر پور خاص، بدین، عمر کوٹ اور سانگھڑ کے عوام کے ساتھ وہ کھڑے ہیں۔ 

وزیراعظم نے کراچی کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے دورے سے قبل وزیراعظم کو خط لکھ کر متاثرہ علاقوں کی بحالی کی سفارش کی ہے ۔ سندھ میں پانچ لاکھ خاندان اور ایک ملین ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی اور پچیس لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ متاثرین کو خوراک مہیا بھی کی جارہی ہے اور متاثرہ افراد کے لیےکیمپس قائم کئے گئے ہیں ۔

اس مشکل وقت میں وزیراعظم سندھ کے متاثرہ علاقوں کا نہ صرف دورہ کریں اور انکی بحالی میں مدد بھی کریں۔ وفاقی حکومت سے زرعی قرضے معاف کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ کراچی کی ترقی کے لئے لوگ دعویٰ تو کرتے ہیں پر وعدے وفا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ 162 ارب کا اعلان وزیراعظم نے فروری 2019 میں کیا تھا اور سندھ حکومت نے اس اعلان کو خوش آمدید کیا تھا ۔ کراچی پر سب کا حق ہے لیکن کراچی میں کوئی ایک ادارہ کام نہیں کرتا کراچی کے کچھ علاقے وفاق کے پاس بھی ہیں ۔ 

ماضی کی تلخیوں کو بالائے طاق رکھ کر سندھ حکومت وفاق کےساتھ بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس پیکج کو بہتر استعمال کرتے ہیں تو اس سے بہت فرق پڑے گا۔ گیارہ سو ارب میں آٹھ سو ارب سندھ حکومت کے شامل ہیں۔اس پیکیج میں 62 فیصد وفاقی حکومت کا ہے اور 38 فیصد سندھ حکومت کا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے 802 ارب روپے کا ذکر پہلے کردیا تھا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس تفصیل میں جائیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ ہمارے ٹارگٹ ہیں جو مختلف مراحل ہیں۔ ہم اپنے بجٹ سے اخراجات کررہے ہیں ہمارے ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ فنڈڈ کے پیسے ہیں۔ اس میں بحریہ ٹاؤن کا پیسہ بھی ہے۔ میں کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا ۔ 

 کراچی سرکلر ریلوے کو وفاقی حکومت اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے جبکہ کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کا حصہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی درخواست پر 2016 میں سی پیک کا حصہ بنا اور اس کی تجاویز تیار کرکے ہم نے وفاق کو دی تھیں اور ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ نے پی سی ون بنا کر وفاق کو دیا اور 3اکتوبر 2017 کو سندھ حکومت نے ایپنک کو دیا ۔ 18 اکتوبر کو اپینک نے بتایا کہ یہ تجویز منظور ہو چکی ہے۔ 8 نومبر 2017 کو ایڈمنسٹریٹیو اپروول گرانٹ کیا اس کے بعد سی پیک سست روی کا شکار ہوگیا وزیر اعلیٰ سندھ نے کے سی آر کے حوالے سے چار خطوط لکھے ہیں اور سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد بھی منظور ہوئی تھی۔ کے سی آر پر وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم سے کہا کہ اس کو ترجیح ملنی چاہیے مگر جواب نہیں دیتے اب کیسے کوئی اور اس کا کریڈٹ لے سکتا ہے۔ 

بیشک وفاق کراچی سرکلر ریلوے پر دعوی کرے پر یہ محنت سندھ حکومت اور مراد علی شاہ کی ہے اور ہم ساتھ مل کر طے کرسکتے ہیں۔ اسد عمر نے آئینی ذمہ داری کا ذکر کیا اور کہا کہ ریلوے وفاقی ادارہ ہے جبکہ سپریم کورٹ کے سامنے سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ اس منصوبے کو ہم سندھ حکومت کے حوالے کریں گے اور عدالت میں وفاق نے اسے اون نہیں کیا اور اورنج لائن پربھی ایسے ہی کیا گیا ۔ بحریہ ٹاؤن کے پیسوں پر سندھ حکومت نے درخواست دائرکر رکھی ہے اور تاحال فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ وفاق نے کائونٹر درخواست داخل کر دی ہے۔ زمین ہماری، پیسہ ہمارا، صوبہ ہمارا اور پیسے وفاق کو چاہیئیں؟ 

پلی بارگین کی رقم متعلقہ صوبے اور اداروں کے حوالے کی جاتی ہے اور پی ٹی آئی کے لیڈر اس پر سندھ حکومت کاحق تسلیم بھی کرتے ہیں۔ لاہور میں اورنج لائن کو صوبائی حکومت نے بنایا تھا یہ سپریم کورٹ کے سامنے کچھ اور کہتے ہیں ۔ بحریہ ٹاؤن کیس میں سپریم کورٹ میں جو پیسے ہیں . وہ پیسے سندھ کے ہیں ۔ 60 سے 62 ارب روپے سپر یم کورٹ میں جمع ہوچکے ہیں۔ ابھی تک ہماری درخواست میں یہ فیصلہ نہیں ہوا ۔ وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ یہ پیسہ ہمارا ہے اس لیے فیصلہ نہیں ہوا جب ملیر ہمارا ہے تو پیسہ بھی ہمارا ہونا چاہیے۔

ریکوری کرنے کے بعد جس کا پیسے ہے اس کے حوالے کرے گی اور مقامی قیادت کہتی ہے کہ یہ سندھ کی امانت ہے لیکن وفاقی حکومت اس پر نظر لگا کر بیٹھی ہوئی ہے یہ پیسہ سندھ حکومت کا ہے سپریم کورٹ بے شک اس پیسے کو مانیٹر کرے اور اس پیسے کو سندھ میں شفاف انداز میں لگایا جائے اس معاملے میں وفاق اور سندھ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ریڈ لائن ماس ٹرانزٹ اسیکم ہے آئندہ تین سے چار ماہ میں اس کا کام شروع ہوجائے گا اس کے ڈیزائن تیار ہو چکے ہیں اور ملیر ایکسپریس وے پر بھی کام شروع ہونےوالا ہے تین سے چار ہفتوں میں شروع کر دیں گے اور لنک روڈ کے بھی ٹینڈرز ہونے والے ہیں ۔ یہ اہم ڈیولپمنٹ ہوگئی ہے اب شاہراہِ ابراہیم حیدری اور دوسری ملیر کی شاہراہ بھی مکمل ہونے والی ہے اسے آئندہ تیس سے 45 روز میں مکمل کردیں گے۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ 7.8 ارب روپے اس سال خرچ ہوں گے۔ ترجمان سندھ حکومت نے وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس میں ہونے والے تنازعات کے بارے میں جواب دیا کہ میں بحیثیت ترجمان سندھ حکومت شبلی فراز کی باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتا ہوں۔ فواد چوہدری صاحب پہلے پیپلز پارٹی کے گن گاتے تھے۔ فواد چوہدری سے سوال ہے کہ وزیر اعظم نے جو 162 ارب کا اعلان کیا تھا وہ مل گئے ہیں۔ یہ اب اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔بحریہ ٹاؤن کا پیسہ وفاق کا نہیں سندھ کا ہے۔ یہ زمیں ہماری ہے تو پیسہ بھی ہمارا ہے۔ وفاق کی اپوزیشن کی وجہ سے یہ پیسہ سندھ کو نہیں مل سکا۔

کراچی میں ہونے والی بارشوں کی تباہ کاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت ساری جگہوں پر ابھی بھی پانی موجود ہے پی ڈی ایم اے اور وزراء کام کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم طے کرے کہ وہ لسانیت پر یقین کرتی ہے کہ نہیں جب اپنی بات کرنی ہوتی ہے تو لسانیت شروع کر دیتے ہیں۔ کمشنر کراچی سہیل راجپوت کیا اردو اسپیکنگ نہیں ہے۔ تجاوزات کا خاتمہ بلا تفریق ہوگا۔ جو گھر نالوں پر ہوتے ہیں وہی زیر آب آتے ہیں اور نالوں کو چوک کرتے ہیں۔ہم اس کے علاوہ سڑکیں بھی بنائیں گے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار شالوانی اچھے افسر ہیں میں پر امید ہوں کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر معاملات کو بہتر انداز میں حل کریں گے ۔ بہت ساری جگہوں پر پانی نکال لیا گیا ہے اور بہت سی جگہوں میں سیوریج نے بیک کیا ہے۔ یہ صورتحال خراب ہے یہ 40 سال کا بگاڑ ہے اس کو فوری حل نہیں کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین