• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں جہاں ہر سال عورتوں کے حوالے سے عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے وہاں اسی دنیا میں بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن بھی منایا جاتا ہے مگر اس کا کیا کیجئے کہ مسلم دنیا میں بالخصوص انہی دونوں ’’ہستیوں‘‘ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کشور حسین شادباد میں اس وقت 35لاکھ بچے جبری مشقت یا بچہ مزدوری کا نشانہ یا شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان میں 5سے 14سال کے 83فیصد بچے اور نابالغ بچہ مزدوری (چائلڈ لیبر فورس) کا حصہ ہیں اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ بچہ مزدوری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ بچوں کی یہ جبری مشقت صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ لعنت پھیل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں 10سے 14سال کی عمر کے تقریباً 73ملین بچے مزدوری کرتے ہیں جب بچے گھنٹوں تک ہوٹلوں، کھیتوں کھلیانوں، فیکٹریوں، کارخانوں، بھٹوں، گھروں اور سڑکوں پر جسمانی مشقت کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں تعلیم حاصل کرنے کا احساس کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے۔ بچہ مزدوری کے ذریعے ان کی نشوونما تعلیم و تربیت اور ان کا بچپن و مستقبل تباہ کردیا جاتا ہے‘‘۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بچوں سے مشقت نہ لینے کے لئے کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ ہے۔ ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کل ’’مزدور بچوں‘‘ کی تعداد 56فیصد بچوں اور 27فیصد کم سن بچیوں پر مشتمل ہے جن کا زیادہ تر تعلق پنجاب سے ہے۔ رپورٹ کے مندرجات میں کہا گیا کہ دنیا کے ہر خطے میں بچوں کو نہ صرف تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ انہیں چند سو روپے کے عوض 8سے 18گھنٹے مشقت کرتی پڑتی ہے دنیا میں 80لاکھ بچے غلامانہ طور پر زندگی گزار رہے ہیں اور سالانہ بارہ لاکھ بچے مزدوری اور جنسی سرگرمیوں کے لئے اسمگل کئے جاتے ہیں۔ پاک سرزمین میں میڈیا فورم کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چند برسوں کے دوران بچوں پر جنسی تشدد زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں 70(ستر) فیصد اضافہ ہوا ہے اس وقت مملکت خداداد میں دولاکھ سے زیادہ بچے جسم فروشی پر مجبور ہیں اس وقت بچوں پر تشدد کے حوالے سے وطن عزیز دنیا میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے 2006اکتوبر میں بچوں سے مزدوری نہ لینے کے خلاف قانون پاس ہوچکا ہے جس کی رو سے 14سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کروانے پر 2سال قید اور بیس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ بچوں کی عالمی تنظیم یونیسف کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 75لاکھ بچے بیگار کیمپوں میں کام کررہے ہیں دنیا میں ہر آٹھواں بچہ نامناسب انسانی ماحول اور خطرناک صورت حال میں کام کررہا ہے جبکہ آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے مطابق دنیا میں 5سے 14برس کے 25کروڑ بچے مزدور ہیں جن میں 14کروڑ بچے اور 11کروڑ بچیاں شامل ہیں۔ مزدور بچوں کی تعداد کے حوالے سے ایشیا کا خطہ سب سے آگے ہے 61فیصد جبری مشقت کے شکاربچے ایشیا میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں 25لاکھ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں پاکستان میں (5سے 14سال) 83فیصد بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں ملک کی کل چائلڈ لیبر فورس 73فیصد بچوں اور 27فیصد بچیوں پر مشتمل ہے (جبکہ پاکستان کی کل افواج سات لاکھ ہے) اس فورس کا 60فیصد صرف پنجاب میں ہے (جبکہ 75فیصد افواج کا تعلق پنجاب سے ہے) پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد کا نصف ہفتے میں کم از کم 35گھنٹے جبکہ 13فیصد مزدور بچے 56گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرتے ہیں۔ دنیا میں 20لاکھ بچے انتہائی خطرناک ماحول میں مختلف صنعتوں سے وابستہ ہیں جبکہ کل چائلڈ لیبر فورس کا سات فیصد شدید بیماری کے دوران کام کرنے اور مختلف حالات کے دوران زخمی ہوجاتے ہیں۔ 25فیصد بچے اس صورت حال کا کبھی نہ کبھی سامنا ضرور کرتے ہیں جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد سات فیصد بتائی جاتی ہے یہ وہ بچے ہیں جو فیکٹریوں، گھروں، ورکشاپوں، ہوٹلوں، بھٹوں، کھیتوں اور تعمیراتی یونٹس میں کام کرتے ہیں اور دوران ڈیوٹی جنسی تشدد کا نشانہ بنادئیے جاتے ہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے کہ ملک عزیز میں اس سال بچوں پر جنسی تشدد کے 1384دلسوز واقعات ہوئے ہیں ان میں سے پنجاب میں 830، سندھ 440اور سرحد میں 75واقعات پیش آئے گزشتہ برس 324بچوں کے ساتھ اجتماعی تشدد کے واقعات پیش آئے یہ انکشاف روح فرسا ہے اور یہ اعداد و شمار صاحب اولاد کا دل دہلا دینے کے لئے کافی ہیں۔

وصل کی اب کوئی ترکیب نکالی جائے!

صحن کے بیچ کی دیوار گرا لی جائے!

تازہ ترین