• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست تو ویسے بھی مفادات کے گرد گھومتی ہے لیکن کم از کم اہم ترین اداروں اور ملک کو تو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش بالکل ہی نا مناسب ہے۔ہمارے ہاں سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ تو کب کا نکل چکا ہے لیکن کم از کم ملک کے اہم ترین اداروں کو تو بخش دینا چاہئے۔اس تمہید کا مقصد ایک ملاقات کے بارے میں شروع کی گئی بحث ہے۔گزشتہ دنوں عسکری قیادت اور بعض اہم سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔چونکہ ان اراکین پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان شامل تھے ۔اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ایک یہ کہ عسکری قیادت سے یہ ملاقات کسی ایک جماعت کے اراکین کی نہیں تھی دوسری بات یہ کہ اس ملاقات کا مقصد کسی اہم ملکی و قومی معاملہ پر تبادلہ خیال تھااور کسی متفقہ رائے پر پہنچنا مقصود تھا۔تاکہ کھل کر اپنے اپنے خیالات اور رائے کا اظہار کیا جائے۔ یہ ملاقات اس بات کا اظہار ہے کہ پاک فوج کا سیاست سے نہیں ملکی سلامتی سے لگائو ہے۔لیکن بد قسمتی سے کسی نے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے اس ملاقات کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا کہ جو کچھ پوشیدہ رکھنا ضروری تھا۔ان میں سے بعض باتیں طشت از بام ہو گئیں۔ اور ایک غیر منطقی،نامناسب بحث شروع کر دی گئی۔اس سے لگتا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا۔یہ کون سی سیاست اور کون سا طریقہ ہے کہ اہم ملکی معاملات کو سڑک اور چوراہوں پر زیر بحث لایا جائے۔اپنے گندے کپڑے چوراہے پر دھونے کا سلسلہ تو کافی عرصہ سے شروع کیا جا چکا ہے۔سیاسی مفادات کی خاطر اخلاقیات کی پامالی کا کسی کو احساس ہی نہیں رہا۔پاکستانی سیاست سے عوام کو تو کیا خاک فائدہ ملنا تھا بلکہ عوام بے چارے تو سیاسی ہاتھیوں کی لڑائی میں روندے ہی چلے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت کو ہی لے لیں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سفید پوش طبقہ کو تو عزت برقرار رکھنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو جینا محال کر رکھا ہے۔پارلیمنٹ کے ہر ایک اجلاس پر کروڑوں روپے اس بدقسمت قوم کے ضائع ہو رہے ہیں۔ لیکن ان ڈھائی سالوں میں عوام کی فلاح اور بہتری کے لئے ایک قانون نہیں بنایا گیا۔

حکمران اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے اپوزیشن کو پچھاڑنے کو کار کردگی سمجھتے ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کی فوج کی ڈیوٹی شاید یہ ہے کہ اپوزیشن کے خلاف جو منہ میں آئے کہا جائے یہی کار کردگی ہے۔دوسری طرف اپوزیشن بھی کم نہیں ہے۔موجودہ وزیراعظم کو مخصوص نام سے یاد کرنے کا اشارہ بڑا واضح ہے کہ ان کو مسلط کیا گیا ہے۔یہ کیا بات ہوئی کہ جن لوگوں نے ان کو ووٹ دیئے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اور جن لوگوں نے اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دیئے ہیں ان کی اہمیت ہے۔یہ کیسا پیمانہ ہے۔جب بعض جماعتیں دو دو اور تین بار برسراقتدار آئی تھیں تو پھر کیا ان کو بھی مسلط کیا گیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ حکمران تو بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اپوزیشن والے اقتدار کی کرسی پر چڑھنے کے لئے بے تاب ہیں۔یہ بھی واضح ہے کہ احتساب کے نام پر انصاف حکومت کا انصاف یہ ہے کہ مخالفین کو کسی بھی نام نہاد کیس میں پھنسایا جائے اور اپنے ساتھیوں کو حکومتی چھتری کے نیچے رکھتے ہوئے نیب سے بچایا جائے۔کیا یہ ریاست مدینہ ہے؟ اور یہ انصاف ہے؟کوئی میڈیا ہائوس یا میڈیا سے تعلق رکھنے والا سچ بولے۔حکومت کو عوام کی مشکلات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرے اس کا گلا دبایا جائے۔کیا اس طرح کبھی حکومتیں چلی بھی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایسا سلوک کرنے والی حکومتیں چلتی نہیں بلکہ چلی جاتی ہیں۔ اب جو سیاسی نمبرز بڑھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مذکورہ ملاقات کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے بلکہ جس طرح اس اہم ملاقات اور ملکی سلامتی و مفاد کو تماشا بنانے کی کوشش کی گئی ہے یہ ناقابل معافی و نا قابل تلافی ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کی بنیاد بھی حکومتی رکن نے رکھی ہے۔اور اس بارے میں جواب الجواب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔اخلاقیات کا نہیں تو کم از کم ملکی سلامتی و مفاد پر سیاست کرنے کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔کیا یہ لوگ بتا سکتے ہیں کہ ان کی سیاست سے اب تک ملک و قوم کا کیا بھلا ہوا۔اب تو یہ وقت بھی آیا کہ سیاسی رموز سے نا بلد نو آموز سیاسی لیڈران کہتے ہیں کہ عسکری قیادت سے ملاقات ہی نہیں کرنی چاہئے یا پھر وہ پارلیمنٹ میں آکر بات کریں۔ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ملکی سلامتی سے متعلق گفتگو لائوڈ اسپیکر پر نہیں کی جاتی۔جس کسی نے بھی اس ملاقات کا چر چا کر کے ملکی سلامتی سے متعلق باتوں کو آشکار کرنے کی ابتدا کر کے سیاسی نمبر ٹانکنے کی کوشش و آغاز کیا ہے اور جو لوگ اہم ترین ادارے کو بے توقیر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ان کا تدارک کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کو بھی انتقام کے دہکائے گئے الائو کو بجھاکر اب ملک کو گلزار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔اپوزیشن کو بھی اپنے فرائض پر توجہ دینی چاہئے اور ہر صورت ملک اور ملک کے محافظوں کو مقدم رکھنا چاہئے اور یہی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد ہے ورنہ تبدیلی تو آکے رہے گی۔

تازہ ترین